• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً 40سال پہلے 1975ء میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ وہ سابق کمرشل قونصل ترکی تھے۔ انہوں نے ریٹائر ہو کر ترکی جانے کے بجائے قریبی لال کوٹھی کے نزدیک ایک مکان میں رہائش اختیار کر لی۔ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت میں یہیں بس گئے ۔ ان کی والدہ اور دو بہنیں ترکی میں ہی رہتی تھیں ۔پورا خاندان پڑھا لکھا مذہبی تھا۔ بہنیں ایم اے جرنلزم اور ترکی کے بڑے اخبار میں صحافی تھیں ۔اکثر اس اخبار کی طرف سے ہمارے حکمرانوں کے انٹرویوز کے سلسلے میں پاکستان آتی جاتی تھیں۔ اس طرح بہن بھائیوں میں ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا پھر وہ صاحب جن کا نام محی الدین دولو تھا انہوں نے گھر تبدیل کر کے ہمارے دفتر کے سامنے والی گلی PECH بلاک 6میں رہائش اختیار کر لی تو گھر اور دفتر دونوں میں راقم کا آنا جانا ہو گیا وہ اردو بھی اچھی بول لیتے تھے اور ہمارے بچے بھی ان سے بہت مانوس ہو چکے تھے وہ اکثر اتوار کی رات کا کھانا مل کر کھاتے تھے ترکی کی بہت سی کمپنیاں جو پاکستان سے تجارت کرتی تھیں ان کی ایجنسیاں بھی انہوں نے لے رکھی تھیں جس سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ پاکستان سے ترک بھائیوں کی انسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1965ء کی جنگ میں عملی مدد اور حوصلہ بڑھانے میں پاکستان کے شانہ بشانہ تھے۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے عقیدت و احترام، خیر سگالی کا مظاہر کرتے تھے جو آج تک جاری ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کی سیاست صدر ضیاء الحق صاحب کے اردگرد گھومتی تھی ہر طرف امن ہی امن تھا مگر اس کے برعکس ترکی میں بے چینی اور قتل و غارت گری کا دور دورہ تھا میرے دوست اس وجہ سے بھی پاکستان میں رکے تھے کہ ترکی کی نسبت یہاں بہت امن تھا اور سوسائٹی کا علاقہ نیا نیا بنا تھا اچھی اچھی سڑکیں، کشادہ مکانات ، کھانے پینے کے ہوٹلوں کے علاوہ ہر چیز بآسانی سستے داموں مل جاتی تھی جب کہ ترکی میں بہت مہنگائی تھی۔ رہائشیں بھی پاکستان کی بہ نسبت اتنی خوبصورت نہیں ہوتی تھیں۔ میرے دوست اکثر ترکی میں سیاسی تبدیلی کا ذکر کرنے لگے تھے خاص کر جب ترکی میں سیاسی تبدیلی آئی اور کنعان ایورن 12ستمبر 1980ء کو برسراقتدار آئے تو انہوں نے قومی سلامتی کونسل کی بنیاد رکھی اور پہلے چیئرمین منتخب ہو کر ترکی کو جدید پیمانے پر سدھارنے کا عزم کیا پھر 9نومبر 1982ء کو صدارت کا حلف اٹھایا۔ سیاست، وزیر اعظم ترگت اوزال کے حوالے کر دی اور خود تعلیم ، صحت ، کرپشن ختم کرنے کا اعادہ کیا ۔یہ تمام باتیں اس زمانے میں اکثر میرے دوست بتاتے رہتے تھے کہ صدر کنعان نے قابل اعتماد اساتذہ کی ٹیمیں بنائی تاکہ سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں معیار ِتعلیم بہتر ہو۔ مفت سکینڈری تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بنانے کیلئے نئے شعبے تشکیل دئیے گئے۔ خود صدر صاحب اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر معائنہ کرتے تھے۔ وہ صرف تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں تھے بلکہ مشوروں کے ذریعے معیار تعلیم اور درسگاہوں کی تعمیر نو کے قائل تھے۔ جب عوام نے دیکھا کہ صدر صاحب خود اس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی ٹیمیں دن رات اس کی نگرانی کر کے اچھی اور بری رپورٹس صدر صاحب کو بھجوا رہی ہیں تو لا محالہ کرپشن کم سے کم ہوتی گئی اور ان رپورٹوں کی روشنی میں سرزنش بھی کی جاتی تھی۔ ہر ایک کو غلطیاں دور کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ جب سب نے مل کر تعلیم پر توجہ دی تو طلبہ میں بھی بہتری آئی سالانہ رزلٹ ہی معیارسمجھا جاتا تھا ۔اساتذہ کی تنخواہوں میں بھی کافی اضافہ کیا گیا انعامات اور تمغوں سے بھی پذیرائی ہوتی تھی پھر صحت کے شعبے میں صدر صاحب کی ذاتی نگرانی میں ان کی ٹیمیں سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں کا اچانک دورہ کر کے غلطیوں کی نشاندہی کرتیں ان کو وقت فراہم کی جاتا تھا پھر وقت پر جا کر معائنہ ہوتا تھا کہ واقعی اسپتال کا معیار بلند ہوا۔ ڈاکٹر صاحبان، پروفیسر صاحبان کا مریضوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ان کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر کے پرائیویٹ پریکٹس کا سلسلہ ختم کیا گیا۔ ادویات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ اسپتالوں میں جدید آلات ،مشینری بھی فراہم کی گئی۔ یہ کام پورے ترکی میں پھیلا دیئے گئے صرف شہروں کی حد تک محدود نہیں تھے۔ 10سال دن رات کی کوششوں سے نئے اسپتال، مریضوں کو مفت علاج معالجہ کی سہولتوں کی وجہ سے عوام بہت خوش تھے کرپشن کم سے کم ہوتی گئی۔ عوامی سہولتیں بڑھتی گئیں اس سے ترکی بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا اور یورپ کی ترقی کی طرح وہاں بھی ترقی نظر آنے لگی۔ ترکی کو یورپی یونین کا درجہ تو نہیں دیا گیا کیونکہ یورپی یونین میں اسلامی ریاستوں کا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ مسلمان ممالک کو اپنے ساتھ الحاق کرنے سے کتراتے ہیں البتہ معیشت کی بحالی کیلئے انہوں نے ترکی کو کافی سہولتیں دیں۔ نئی ٹیکنالوجیز بھی فراہم کیں ۔اس طرح 10سال اس عہدے پر رہ کر اپنی میعاد پوری کر کے صدر کنعان 9نومبر1989ء کو سبکدوش ہو گئے۔ ان کے لگائے ہوئے پودوں کو آنے والی حکومتوں نے آگے بڑھایا اور آج ترکی ترقی کرتے کرتے بہت سے یورپی یونین ممالک سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔اس کی کرنسی اُس وقت ایک ڈالر میں لاکھوں لیرا میں ہوتی تھی آج ایک ترک لیرا بھی تقریباً ایک ڈالر کے برابر پہنچ چکا ہے ۔اتنا کچھ لکھنے کا میرا مقصد ہمارے صدر پاکستان جناب ممنون حسین جو صنعت کار ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں اگر وہ بھی ترکی کے صدر کنعان کی طرح پاکستان میں قصرِ صدارت سے نکل کر ایسی ہی ٹیمیں تشکیل دیں جو تعلیم، صحت اور کرپشن کے خاتمے کا سبب بنیں تو ہمارا پاکستان بھی جدید تعلیم سے آراستہ ہو سکتا ہے جہالت ختم اور صحت کے شعبے عوام کی دسترس میں ہوں گے اور اگر ان کی ٹیم بھی ایمانداری سے یہ کام انجام دے گی تو نہ صرف صدر صاحب کا نام روشن ہوگا بلکہ مسلم لیگ ن کو بھی آئندہ کے الیکشن میں عوام بھرپور ووٹ سے نوازیں گے ۔پاکستان میں گزشتہ 5سالوں سے نئی درسگاہوں ، میڈیکل کالجوں پر پابندیاں عائد ہیں۔خدارا ان سب پابندیوں کو ختم کر کے پرانے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کی عمارتوں اور معیار تعلیم کو بلند کیا جائے کاش صدر پاکستان کو میرا مشورہ اچھا لگے اور وہ یہ نیک کام عوام کی بھلائی کیلئے اپنی نگرانی میں شروع کرا دیں اور نئی درسگاہوں کا اضافہ کرا دیں تو یہ صدقہ جاریہ ثابت ہوگا۔
تازہ ترین