• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20 ویں صدی کے آخری اور 21صدی کے پہلے 20سال، دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس لحاظ سے بڑے عبرت آموز ہیں کہ40سال کے اس عرصہ میں دنیا کی دونوں بڑی عالمی طاقتوں، روس اور امریکا ، جو ایٹمی اسلحہ سے بھی لیس ہیں، کو یکے بعد دیگرے افغانستان میں عسکری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ قبل ازیں یہ دونوں طاقتیں ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں، بلکہ فوجی ضرب المثل بن چکی تھی کہ جہاں روسی فوجیں ایک بار داخل ہو جائیں، پھر وہاں سے نکلتی نہیں۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ انسانی عزم وہمت اور غیرت و حمیت سے بڑھ کے کوئی چیز نہیں، امریکا اور روس بھی نہیں۔

افغانستان میں روس اور امریکا کی اس فوجی ہزیمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج سے تقریباً 35سال پیشتر 1988ء میں جب روس، افغانستان سے پسپائی اختیار کر رہا تھا تو ایک طبقہ، جس کی ہمدردیاں اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے امریکا کے خلاف کمیونسٹ روس کے ساتھ تھیں، سوویت یونین کی شکست کا تمام ترکریڈٹ امریکا اور سی آئی اے کو دیتا تھا، اور اس میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمن اور انکے زیر کمان آئی ایس آئی کا کردار تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ امریکا کی جنگ تھی اور امریکا ہی نے جیتی۔ اگرچہ آج بھی اس طرح کے کچھ لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر روس کے خلاف افغان جنگ میں امریکا کی فوجی طاقت اتنی ہی موثر تھی، تو پھر اس سے زیادہ عرصہ میں، اس سے کئی گنا زیادہ فوجی قوت کے استعمال کے باوجود امریکا خود افغانستان میں کامیاب کیوں نہ ہو سکا۔

بروس رائیڈل کا شمار امریکا کے ممتاز ترین مورخین اور عسکری ماہرین میں ہوتا ہے۔ 30سال سی آئی اے سے وابستہ رہے ہیں۔Brookings Institution کے سینئر فیلو اور ڈائریکٹر اور چار امریکی صدور کے یکے بعد دیگرے مشیر رہ چکے ہیں۔ روس کے خلاف افغان جنگ پر ان کی دو تحقیقی کتب America's Secret War in Afghanistan اور Avoiding Armageddon شائع ہو چکی ہیں۔ اس جنگ کے دوران وہ خود بھی سی آئی اے سے وابستہ تھے اور اس حیثیت میں اس جنگ کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ بروس رائیڈل اپنی تحریروں میں اس تاثر کی سختی سے نفی کرتےہیں کہ روس کے خلاف افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت سراسر امریکہ کے ایما پر تھی۔ اسکے برعکس، ان کا کہنا ہے کہ روس کے افغانستان میں فوجیں داخل کر نے پر صدر ضیاء نے سب سے پہلے جنرل اختر عبدالرحمن، جو اس وقت آئی ایس آئی چیف تھے، سے رائے مانگی۔ جنرل اختر کی رائے یہ تھی کہ افغانستان میں قدم جمانے کے بعد روس کا اگلا ہدف بلوچستان ہو گا، تاکہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس صورت میں پاکستان مشرق کی طرف سے بھارت اور مغرب کی طرف سے سوویت یونین کے گھیرے میں آ جائے گا۔ اس خطرے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان افغان مزاحمتی تنظیموں کی بھرپور مدد کرے اور افغانستان کو روسی فوج کیلئے دلدل بنا دے۔ اگر افغانستان میں روسی فوج کی طاقت غیر موثر ہو جاتی ہے، تو وہ پاکستان کیلئے خطرہ بننے کے قابل نہیں رہے گی۔

آگے چل کر بروس رائیڈل یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ میں امریکا کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، کیونکہ امریکیوں کو افغانستان کے اندر جانے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ان کے نزدیک، یہ جنرل اختر کے زیر کمان پاکستان کی آئی ایس آئی تھی، جس نے روس کے خلاف افغان تنظیموں کو رہنمائی، تربیت اور تز ویراتی حکمت عملی مہیا کی، اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی تھے، جنھوں نے اس خطرناک جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دیں۔ اسی طرح 1988ءمیں اوجڑی کیمپ راولپنڈی میں ہونے والی تباہی کا ذمہ دار یہاں کچھ لوگ آج بھی جنرل اختر کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ ایک سال پہلے ہی آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے ترقی پا کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بن چکے تھے۔ بروس رائیڈل اوجڑی کیمپ کی تباہی کے بارے میں پھیلائے جانے والے اس تاثر کو بھی مبنی بر حقیقت نہیں سمجھتے اور لکھتے ہیں کہ 2012ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ کے دو افسروں نے خود ان کے روبرو اعتراف کیا کہ اوجڑی کیمپ کو ’’را‘‘ نے اڑایا تھا، مقصد یہ تھا کہ آئی ایس آئی کو کشمیر کی تحریک آزادی کی پشت پناہی سے روکا جائے۔ اپنی کتاب میں بروس رائیڈل کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی کا کریڈٹ بھی جنرل اختر اور آئی ایس آئی کودیتے ہیں۔

آج پاکستان میں بعض لوگ جب حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ مشکلات کی تمام تر ذمہ داری روس کے خلاف افغان جنگ میں جنرل ضیا اور جنرل اختر کی بھرپور شرکت پر عائد کرتے ہیں، تو یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر فوجی قبضہ کر لیا تھا، تو اسکے بعد پاکستان کی جغرافیائی سلامتی حقیقتاً خطرے میں پڑ چکی تھی۔ پاکستان اس جنگ سے لاتعلق ہو کے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ یہ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ نائن الیون سے پہلے کے حالات مختلف تھے۔ نائن الیون کے بعد کے حالات اور ہیں۔ دونوں طرح کے حالات کو ایک جیسے حالات قرار دے کر ان پر ایک ہی طرح کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ اِس خطہ کے سابقہ اور موجودہ بحران کو ایک اور ہی نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ وہاں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر 17اگست 1988ء کو جنرل ضیا اور جنرل اختر کا طیارہ کریش نہ کرتا، اور وہ دونوں زندہ رہتے تو اس خطہ کو شاید وہ مشکلات درپیش نہ ہوتیں، جو آج ہیں۔ بروس رائیڈل اس سوال کے جواب میں جو کہتے ہیں، وہ بہت معنی خیز ہے، لکھتے ہیں: ’’آج اس مفروضہ پر بات کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر جنرل ضیاء اور جنرل اختر کچھ عرصہ اور زندہ رہ جاتے تو اسکے بعد کی تاریخ کتنی مختلف ہو سکتی تھی۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر دونوں زندہ رہتے تو 1989ء میں وہ افغان تنظیموں میں ایسی ہم آہنگی اور ڈسپلن پیدا کرتے، جس کی روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغان تنظیموں کو اشد ضرورت تھی۔ ان کی پراسرار موت ( 17اگست1988ء) نے پاکستان کو افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح سے محروم کر دیا، جس کی انہوں نے شدید خواہش کی تھی، بلکہ اس خطہ کو بھی مستقل طور پر عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔‘‘

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان پر روس کی ناجائز فوج کشی کے خلاف جنرل ضیا اور جنرل اختر کی کمان میں پاکستان کا تاریخی اور فیصلہ کن کردار آج ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ ترین عسکری اور تزویراتی ادارے بھی اس کو تسلیم کر رہے ہیں، اسکی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ نائن الیون کے بعد کے حالات سے خوف زدہ ہو کے روس کے خلاف پاکستان کی اس تاریخی کامیابی اور اس میں جنرل ضیا اور جنرل اختر کے تاریخی کردار پر فخر کرنے کے بجائےاس پر شرمندہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تازہ ترین