ایک طویل عرصے سے اہل قلم میں یہ بحث جاری ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے لئے اپنے ذہن رسا میں کیا تصور رکھتے تھے۔ کیا وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے یا سیکولر نظام رائج کرنے کے خواہاں تھے۔ وہ مورخین اور اہل قلم جو قائد اعظم کے اسلامی ویژن پر یقین رکھتے ہیں قائد اعظم کی ان بے شمار تقاریر کے حوالے دیتے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور قرآن حکیم کو اس مملکت کے دستور و قوانین کا ماخذ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے قائد اعظم نے اس نوع کی تقاریر تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد بھی کی ہیں جن سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کے مقابلے میں وہ حضرات جو ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں اپنی تحریروں میں قائد اعظم کی11 اگست1928ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قائد اعظم نے فرمایا کہ کوئی بھی عقیدہ رکھنا ایک ذاتی معاملہ ہے جس سے ریاست کو کوئی سروکارنہیں۔ ہم سب ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔11 اگست کی اس تقریر کے محض ایک اقتباس سے یہ نتیجہ ہمارے سیکولر دانشور اخذ کرتے ہیں کہ قائد اعظم کا ویژن ایک سیکولر پاکستان کا تھا، اس کے ثبوت میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ انہوں نے پہلی کابینہ میں کسی مذہبی شخصیت کو بطور وزیر شامل نہیں کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے ایک اچھوت جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون، ایک قادیانی سر ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ اور ایک لبرل ذہن کے غلام محمد کو وزیر خزانہ کاعہدہ تفویض کیا جبکہ قائد اعظم کے مذہبی وژن پر یقین رکھنے والے یاد دلاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے نوزائیدہ مملکت کی اولین پرچم کشائی کا فریضہ خود انجام دینے کے بجائے علامہ شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کے ہاتھوں کرایا۔ غرض یہ کہ یہ ساری بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس بحث میں صداقت اور سچائی کی جو صفات درکار ہیں (معذرت کے ساتھ) مفقود ہیں۔ صورت کچھ یوں ہے کہ قائد اعظم کے ویژن کو ہم نظریات وتعصبات کی روشنی میں سمجھنے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ جو سیکولر اہل قلم ہیں، وہ قائد اعظم کی شخصیت کے ان ہی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن سے ان کا سیکولر ہونا ثابت ہے جبکہ قائد اعظم کو مذہبی انسان ثابت کرنے والے قائد کے سیکولر پہلوؤں کو قطعی طور پر زیر بحث نہیں لاتے۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہنوز کسی تصفیے کا محتاج ہے کہ مسٹر جناح المعروف قائداعظم "مولوی" تھے یا "مسٹر"۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس لاحاصل بحث میں مصروف دانشوروں کی توجہ اس "مظلوم مملکت" کی طرف نہیں جاتی جسے "پاکستان" کے نام سے دنیا کے نقشے پر وجود بخشنے ہی کی وجہ سے جناح، قائد اعظم بنے۔ ان نان ایشو کو ایشو بنانے والے دانشوروں کی مجرمانہ غفلت ہی کی وجہ سے ملک نہ صرف دو لخت ہو گیا بلکہ آج بھی جس کا وجود فنا اور بقا کے سوال سے دوچار ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پینسٹھ برس میں ہم نہ اس ملک میں صحیح معنوں میں شریعت کی بالادستی قائم کر سکے اور نہ سیکولر ازم کی برکتوں سے ہی اس ملک کو فیض یاب کرسکے۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ جہالت، تنگ نظری، خود غرضی ، بے حسی ، حرص و ہوس اور بدترین ظلم و ناانصافی اور عدم مساوات کا شکار ہیں۔ ملک کے تمام وہ طبقات جو قوم کی فکری، روحانی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں خواہ وہ علماء ہوں، وکلا ہوں، صحافی ہوں یا اساتذہ، ادباء و شعراء ہوں یا سیاست داں یا تو فرقوں، گروہوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ہیں یا مصلحتوں کے اسیر ہیں۔ ہمارے دانشور زمینی حقائق سے صرف نظر کرتے ہیں۔ کچھ ایسا گمان ہوتا ہے کہ اسلام اور سیکولرازم کا قضیہ جس دن طے پاگیا، اسی دن اس ملک کی تقدیر سنور جائے گی۔آج بدعنوانی، اقربا پروری ، صوبہ پرستی وغیرہ کا ناسور گھن کی طرح وطن عزیز کے جسد بیمار کو چاٹ رہاہے۔ حکومتوں کی جانب سے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی طرف سے جو غفلت اور لاپروائی برتی جاتی رہی ہے جبکہ قائد اعظم نے اپنی اسی تقریر میں فرمایا تھا،ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے"پچھلی کئی حکومتیں عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ امن و امان کی حالت تباہ ، قانون ناپید اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔قائداعظم نے اس کے فوراً بعد جس سنگین مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ بتایئے قائد اعظم کے اس سکھائے ہوئے سبق کو کب اور کس نے یاد رکھا۔ قائد اعظم نے اپنی11 اگست کی تقریر میں جن زہر ناک رجحانات سے خبردار کیا اور آج بھی جو لاینحل مسائل کی صورت میں قوم و ملک کے درپیش ہیں اس کو وہ قائد اعظم کے حوالے سے گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔ اسی طرح انہوں نے صوبہ پرستی کے حوالے سے 21 مارچ 1928ء کو ڈھاکہ کے جلسہ عام میں فرمایا تھا:پاکستان کو بننے سے روکنے میں منہ کی کھانے کے بعد اپنی شکست سے بددل اور مایوس دشمن نے افتراق پیدا کر کے اس ملک کو تباہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے۔ ان کوششوں نے زیادہ تر صوبہ پرستی کی حوصلہ افزائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جب تک آپ اس زہر کو اپنے جسد سیاست سے باہر نکال نہ پھینکیں گے آپ خود کو کبھی بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ بناسکیں گے۔ خود کو ایک حقیقی اور سچ مچ کی قوم بنالیجئے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہم بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کے حوالوں سے بات نہ کریں۔ بلاشبہ یہ اجزاء ہیں لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ وہ سبق فراموش کر بیٹھے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو دیا گیا تھا؟"قائد اعظم کے بعد علیحدگی کے نعرے اس مملکت خداداد میں اسی لئے زہر گھولنے کا سبب ہوئے ہیں کہ ہماری حکومتوں، سیاسی جماعتوں، دانشوروں، علماء، اساتذہ، وکلاء، صحافیوں اور ادیبوں نے قائد اعظم کے ان فرمودات اور انتباہات کو فراموش کردیا اور اسلام و سیکولر ازم کی لاحاصل اور بے سود بحث میں الجھ گئے۔ قائد اعظم کی عظمت کردار جو جرأت ، امانت ، دیانت اور قول و عمل کی مطابقت اور یقین و عمل محکم سے عبارت تھی، اس کی ایک ادنا سی چھینٹ بھی نہ عوام پر پڑی اور نہ رائے سازوں پر۔