اِن دِنوں جہاں جائیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ منہگائی اور ملک اور قوم کی اقتصادی زبوں حالی نے کوئی اور موضوع گفتگو کے لیے چھوڑا ہی نہیں ہے۔ اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے، کیوں کہ ملک کی تاریخ کی ریکارڈ منہگائی نے اچھے اچھوں کو ہلادیا ہے۔ منہگائی کے ضمن میں سب سے زیادہ ذکر بجلی اور پیٹرولیم کی مصنوعات کے ہوش رُبا نرخوں کا ہوتا ہے۔
پھر حد سے زیادہ محاصل کی بات آتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ منہگائی اور بہت زیادہ محاصل کی سب سے بڑی وجہ انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف)کی جانب سے قرض دینے کے لیے عائد کی جانے والی شرائط ہیں۔ لیکن عام آدمی یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ہم کسی سے قرض لینے اور آئی ایم ایف کی اتنی کڑی شرائط ماننے پر کیوں مجبور ہیں؟ یہ سوال بلاشبہ بہت اہم ہے اور ذیل میں ہم نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے اور اس مشکل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی مختصر سی کوشش کی ہے۔
چند یوم قبل غیرملکی جریدے بلوم برگ نےانکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں منہگائی اب بھی ایشیائی ملکوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر ہے۔ حکومت کو نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منہگائی کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن بجلی کےماہانہ بلزنے گھر وں کے کرایوں کی شرح کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹیرف میں اضافے اور آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کی تعمیل کے لیے دیگر اصلاحات نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا ہے۔جریدے کے مطابق پاکستان کے دائمی اقتصادی بحران سے دوچار ہونے کے باعث توانائی کاشعبہ سردرد بن گیا ہے۔
دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ ملک میں بجلی کے بھاری بلز کی ایک بڑی وجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی جانب سے لگا ئے گئے بالواسطہ ٹیکسز ہیں۔ ایف بی آر بجلی کے بلز پر ٹیکسز سے سالانہ 950ارب روپے کے محصولات اکٹھے کرتا ہے۔ اس وقت بجلی کے بلز میں آٹھ طرح کے ٹیکس عائد ہیں جس کے تحت بجلی کےصارفین9روپے فی یونٹ کے حساب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
اس وقت بجلی کے بلز پر عائد ٹیکسوں میں جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس، ایکسٹرا سیلز ٹیکس، الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور ٹی وی فیس شامل ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر کے ٹیکسز میں سے 390 ارب روپے وفاق کو ملتے ہیں اور 560 ارب روپے کا حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے۔
سارا بوجھ غریب کے کاندھوں پر
یعنی محاصل جمع کرنے کے لیے عوام کو خوب نچوڑا جارہا ہے۔ مگر اشرافیہ اور محاصل کے چوروں پرایف بی آر کا اب بھی ہلکا ہاتھ ہی ہے۔ یقین نہ آئے تو زرا ان اعدادو شمار کا جائزہ لے لیں۔ ایف بی آر کی جانب سے شائع ہونے والی 2024-25 کے لیے شواہد پر مبنی ریونیو فور کاسٹنگ رپورٹ کے مطابق 30جون2024 کو ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال 2023-24کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب9فی صد ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے شائع ہونے والی 2024-25کے لیے شواہد پر مبنی ریونیو فور کاسٹنگ رپورٹ کے مطابق ٹیکس جی ڈی پی کے تناسب کا رجحان 8.7 فی صد سے 9.2فی صد کی حد میں رہا۔ گزشتہ سال ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب 8.5 فیصد تھا۔ تاہم مالی سال 2023-24 کے دوران (پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار کی بنیاد پر) اس میں بہتری آنا شروع ہوئی ہےاور یہ جی ڈی پی کے 9.0 فی صد پر کھڑا ہے۔
مالی سال 2024-25 کے لیے ایف بی آر کے ریونیو کا ہدف، بغیر بجٹ اقدامات کے 11,174 روپے (ارب) متوقع ہے۔ متوقع ہدف مالی سال 2023-24 کے لئے 9,252 ارب روپے کی متوقع وصولی سے20.8فی صد زیادہ ہے۔ ایف بی آر ڈائریکٹ ٹیکسز کی شکل میں 4.586 کھرب روپے ،4.327 کھرب روپے سیلز ٹیکس، 0.70 کھرب روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور 1.559 کھرب روپے کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ریونیو اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگا رہا ہے۔
بڑی مچھلیوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالاجاتا ؟
ہم نے گزشتہ برس بہت منتیں کرکے اور آئی ایم ایف کی بہت سخت شرائط مان کر اس سے دو ،ڈھائی ارب ڈالرزقرض لیے تھے اور اب تقریبا چھ ارب ڈالرز کا قرض ملے گا۔ ایک ارب ڈالرز کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو دو سو اسّی یا نوّے ارب روپے بنتے ہیں۔ لیکن آزاد ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگرحکومت اشرافیہ اور محاصل کے چوروں پر اپنا ہاتھ زرا سا بھی سخت کردے تو تقریبا چار ہزار ارب روپے سالانہ محاصل جمع کیے جاسکتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے تجویز کردہ ساختی بینچ مارک کے تحت،پارلیمنٹ میں بیٹھے بڑے زمینداروں، جاگیر داروں اور دیگر بااثر شخصیات سے سالانہ بنیاد پر 1500 ارب روپے تک کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ایک شرط منسلک ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں تن خواہ دار، غیر تن خواہ دار طبقے سے وصول کیے جانے والے زیادہ سے زیادہ 45 فی صد شرح کے مطابق یہی شرحیں عائد کریں تو وصولی مطلوبہ سطح تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کہتے ہیں کہ زرعی آمدنی سے 1500ارب روپے تک حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ایک فی صد بڑے جاگیردار وں کے پاس 22فی صد زمین ہے۔ انہیں محاصل کےجال میں لانا چاہیے، لیکن عملی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبے اس وقت زیادہ سے زیادہ 60 سے 70 ارب روپے جمع کر سکتے ہیں۔ 5فی صد زمیںدار ملک کی 44 فی صد زمین کے مالک ہیں۔ منصفانہ اور مساویانہ ٹیکس نظام کے تحت، ان بڑے زمیںداروں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر پاشاکا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے اور زرعی آمدن کو آئی ایم ایف کی تجویز کے مطابق ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا۔ تحقیقاتی مطالعوں کی بنیاد پر اپنے تخمینوں کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ 1500 ارب روپے تک حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن عملی طور پر سالانہ بنیاد پر 60-70 ارب روپے کی وصولی ہوگی۔
آج آزاد ماہرینِ اقتصادیات کا اتفاق ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کا شاید یہ واقعی آخری موقع ہے۔ عارف حبیب کہتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ ہزار ارب کے بجٹ خسارے میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے کی کمی صرف شرح سود نیچے لاکر لائی جاسکتی ہے۔
صدر پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ظفر مسعود کے مطابق ٹیکس مشینری سے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کی لیکیج ہوتی ہے۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں سے دو ہزار ارب روپے کی ٹیکس لیکیج ہے۔ یہ ٹیکس ہم وصول نہیں کرپاتے یا پھر استثنیٰ دے دیتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے بہ قول ایف بی آر کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کی کتنی آمدن ہے، بینکوں میں کتنا پیسہ ہے، کتنی گاڑیاں اور کتنی جائیدادیں ہیں؟ کتنی بار بیرون ملک سفر کیا ہے؟ مگر ایف بی آر اس ڈیٹا پر کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہماری صنعتیں صرف وہی ٹیکس پورا دیتی ہیں جو ایٹ سورس کٹ جاتا ہے، ٹیکسیشن سے استثنیٰ ختم کرنا ہوگا۔بے تحاشا ٹیکس، منہگی بجلی اور سیاسی عدم استحکام ہماری معیشت کے بڑے مسائل ہیں۔
تن خواہ دار پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، زرعی ٹیکس کے ذریعےعوام کو ریلیف دینا چاہیے۔ سیاست داں کبھی اپنے طور پر ریفارم کا فیصلہ نہیں کر پاتے۔تن خواہ داروں پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہنر مند ملک سے ہجرت کر جائیں۔ ٹیکس سلیب بڑھنے کے بعد لوگ کیش میں یا دو اکاؤنٹس میں تن خواہیں لینے کے راستے ڈھونڈیں گے۔ موجود بجٹ آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ صرف فائر فائٹنگ بجٹ ہے۔بجٹ کے بعد مسائل مزید بڑھے ہیں۔
کان کنی ایسا شعبہ ہے جس پر اب تک خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان میں اگر آپ گروتھ اور انویسٹمنٹ چاہتے ہیں تو تین چیزیں کرنا ہوں گی، ایک انرجی پرائز میں کمی، دوسرا انٹرسٹ اور تیسرا ٹیکس ریٹ کو کم کرناہے۔ ریٹیلرز ٹیکس جمع کرنے کا معاملہ مینوفیکچرز پر ڈال دیا گیاہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ لوگوں کی خرچ کرنے کی سکت بہت کم ہوگئی ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر ملک کو ترقی کرنا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف کےپروگرام سے باہر نکل کراپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا،اپنی آمدن پر گزارہ کرنا ہوگا۔ خسارے میں رہتے ہوئے قرضے لیتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ آئی ٹی کے شعبے میں بہت مواقع ہیں۔ باہر جانے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، لیکن جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں بھی باہر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں ٹو جی، تھری جی کی اب تک بات ہوتی ہے، لیکن دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔یہاں فراڈ پروٹیکشن کے قوانین ہی نہیں ہیں، ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی خاکہ نہیں ہے۔ ہمیں ڈیجیٹل معیشت کو ترقی دینا ہو گی۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سمیت ملک کے سرکردہ اقتصادی اور معاشی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے تمام شعبوں کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق دُنیا کے تمام ممالک نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی ہے اور پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔ٹیکس نیٹ میں توسیع نہ کرکے گزشتہ مالی سال ضائع کیا گیا اور اس سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 10 فی صد تک پہنچ جائے گا جو ملک کی اقتصادی صورت حال کے پیش نظر اب بھی ناکافی ہوگا۔
سونے کے کاروبار کےشعبے سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ ان کی تجویز ہے کہ ر یئل اسٹیٹ سیکٹر میں جائیدادوں پر ٹیکس کی مختلف شرحیں ختم کی جائیں اور ریٹیلرز سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے صنعتی سطح پر سیلز ٹیکس لگایا جائے۔ وہ ٹیکس وصولی کے معاملات سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے اور فکسڈ ٹیکس سسٹم متعارف کرانے پر بھی زوردیتے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی کا کہنا ہے کہ بجلی کے کنکشن حاصل کرتے وقت صارفین کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے۔30لاکھ صنعتی صارفین ہیں اور ان میں سے صرف ایک لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں۔ ہماری معیشت کام نہیں کر رہی ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کے نظام کے لیے پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ان کے بہ قول صرف بھارتی شہر ممبئی سے جمع ہونے والے پراپرٹی ٹیکس کی رقم پورے پاکستان سے جمع ہونے والے پراپرٹی ٹیکس سے زیادہ ہے۔ پراپرٹی سروے کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملک کا سیاسی نظام کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتا ہے۔
اقتصادی ماہر عمار حبیب خان کے بہ قول نقد لین دین کے خاتمے اور ڈیجیٹل ادائیگیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔پانچ ہزار ہزار روپے سے زیادہ کے نقد لین دین پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ بات درست ہے کہ سونے کے تاجر کبھی بھی ڈیجیٹل ادائیگیوں کو قبول نہیں کریں گے، لیکن ایک نظام قائم کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
چوروں کو پکڑیں، عوام کی جان چھوڑیں
یہ حقیقت ہے کہ ایف بی آر کے پاس اب ایسا بہت سا ڈیٹا ہے جس کی مدد سے وہ بہت سے ٹیکس چوروں اور جعل سازوں کو اپنی گرفت میں لاسکتا ہے ،لیکن اب بھی نہ جانے کیوں ایسے لوگوں کو تحفظ حاصل ہے۔ اس بارے میں حقیقت جاننی ہو تو18 جولائی کو سامنے آنے والی اس خبر کو دیکھ لیں جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایت کی ہے کہ49لاکھ دولت مند افراد اور سرمایہ داروں کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور غریب طبقے پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
خبر کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ایف بی آر میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سےچار گھنٹے طویل اہم جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز میں اصلاحات اور ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے گزشتہ 8 ہفتوں کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس دینے کی استطاعت رکھنے والے 49 لاکھ افراد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یکم اپریل 2024 سے اب تک ایف بی آر تاجر دوست موبائل فون ایپلی کیشن کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ ریٹیلرز رجسٹر ہوچکے ہیں۔
صرف چارماہ میں 800 ارب روپے کا فراڈ
مذکورہ اجلاس کو بتایا گیا کہ ایف بی آر ڈیجیٹائزیشن کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور گزشتہ 4 ماہ میں ٹیکس ریفنڈز میں 800 ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا۔ ایف بی آر کی جانب سے وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ مختلف عدالتوں اور ٹربیونلز میں ٹیکس کے حوالے سے 3.2 کھرب روپے کے 83579 مقدمات زیر التوا ہیں۔ موجودہ حکومت کے اب تک کے دور میں ٹیکس مقدمات کے حل کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ گزشتہ چار مہینوں کے دوران مختلف عدالتوں کی جانب سے تقریباً 44 ارب روپے کے 63 مقدمات نمٹا دیئے گئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ٹیکس ریفنڈ کا نظام مزید بہتر بنائے گی۔ ایف بی آر میں اصلاحات سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے۔ اصلاحات کے حوالے سے ایف بی آر کے کئی منصوبوں میں غیر ضروری تاخیر انتہائی افسوسناک ہے ۔
وزیراعظم نے ٹیکس مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے اپیلٹ ٹربیونلز کی تعداد 100 تک بڑھانے اور کسٹمز کے مقدمات کے حوالے سے بھی اپیلٹ ٹربیونلز کی تعداد بڑھانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے ٹیکس اپیلٹ ٹربیونلز کی کارکردگی جانچنے کے حوالے سے ڈیش بورڈ تیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی ۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سیلز ٹیکس کے حوالے سے ماضی میں کیے گئے غیرقانونی ریفنڈز کی واپسی کے لیے فوری حکمت عملی بنائی جائے اور اکتوبر 2024ء تک ہر ٹیکس دہندہ کے لیے سنگل سیلز ٹیکس سسٹم لاگو کیا جائے۔
ایف بی آر کی خراب کارکردگی یا کچھ اور۔۔۔
بعض اطلاعات کے مطابق تاجر دوست اسکیم کی خراب کارکردگی کے باعث، جس میں صرف 44,830 ریٹیلرز رجسٹر ہوئے، ایف بی آر 3.6 ملین ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے دکانوں کی قیمتوں کی بنیاد پر ایک سادہ فکسڈ اسکیم متعارف کرانے کے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تمام اسکیمیں پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے ناکام ہو چکی ہیں۔
ایف بی آر کے حکام اب یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ہمیں کچھ مختلف کرنا ہوگا تاکہ کوئی اثر پیدا ہو، لیکن اگر ایک اور روٹین اسکیم متعارف کرائی گئی تو یہ بھی ملک کی تاریخ میں ایک اور ناکامی ثابت ہوگی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہم 3.6 ملین ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں اور اس بار ایف بی آر مختلف سلپس کے ساتھ آنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو دکانوں کی قیمتوں پر مبنی ہوں گے، ایک فکسڈ ٹیکس متعارف کرایا جا سکتا ہے تاکہ انہیں ٹیکس نیٹ میں آنے کے لئے راغب کیا جا سکے۔
حکام کے مطابق مختلف شہروں اور قصبوں میں پراپرٹیز کی قیمتوں کا تعین جاری ہے جسے جلد نوٹیفائی کیا جا سکتا ہے۔مختلف شہروں کے مختلف بازاروں کی قیمتوں کی بنیاد پر ایف بی آر ریٹیلرز کے لیے ایک فکسڈ سلیب اسکیم متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ریٹیلرز کےلیے فکسڈ اسکیم کی مختلف خصوصیات کا مطالعہ جاری ہے اور اسے جلد ہی لانچ کیا جائے گا۔
ایف بی آر نے تاجر دوست اسکیم کی رجسٹریشن رضاکارانہ بنیادوں پر شروع کی تھی جس کی آخری تاریخ 30 اپریل 2024 تھی، اور صرف 78 ریٹیلرز نے خود کو رجسٹر کیا۔ پھر ایف بی آر نے تاجر رہنما نعیم میر کو شامل کیا اور اپنی رجسٹریشن مہم جاری رکھی۔ اب تک، ملک بھر میں 3 ملین سے زیادہ ریٹیلرز میں سے صرف44830 ریٹیلرز نے تاجر دوست اسکیم میں رجسٹر کیا ہے۔
بااثر افراد کیسے بچتے ہیں
یہ گزشتہ ماہ کی نو تاریخ کی بات ہے۔پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وفاقی حکومت کے رائٹ ٹو ایکسیس آف انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو 1000بڑے قرض نادہندگان کی فہرست 10روز کے اندر افشاء کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
کراچی کے رہائشی عظمت خان کی جانب سے مذکورہ قانون کے تحت دائر کردہ درخواست کے جاری کردہ فیصلے میں پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1000 افراد نے متعلقہ بینکوں سے قرضے حاصل کیے اور انہیں واپس کرنے میں ناکام رہے، جس سے ملک اور اس میں شامل بینکوں دونوں کو کافی مالی نقصان پہنچا۔ ایسے افراد سے متعلق معلومات اور انکشافات کو چھپا کر نہیں رکھا جا سکتا۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس کیس میں دی گئی استثنیٰ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کمیشن نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہدایت کی تھی کہ وہ مطلوبہ معلومات افشا کرکے 10 دن کے اندر کمیشن کو پیش کریں۔ کمیشن کے احکامات کی تعمیل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کے سیکشن 20(f) کے تحت ذمہ دار فریقین کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی۔
درخواست گزار عظمت خان نے وفاقی حکومت کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ2017کے تحت 1000 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست طلب کی تھی۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب میں رائٹ ٹو ایکسیس آف انفارمیشن ایکٹ2017 کے سیکشن 7(d) کے تحت مذکورہ معلومات کو افشاء کرنے سے استثنیٰ کی درخواست کی تھی جو بینکنگ کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے اپنے صارفین کے اکاؤنٹس اور ان کے ریکارڈ سے متعلق ہے۔
کمیشن نے معلومات کی درخواست اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے تحریری جواب اور متعلقہ قانون کا بہ غور جائزہ لینے کے بعد اپنے حکم میں واضح کیا تھا کہ معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ 2017 کا سیکشن 7(d)، جو کچھ ریکارڈز کو افشاء سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے، قرض نادہندگان کی درخواست کردہ فہرست پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔
اس کے بعد رواں ماہ کی آٹھ تاریخ کوپاکستان انفارمیشن کمیشن میں 1000بڑے قرض نادہندگان کی فہرست افشاء کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر عنایت حسین اور ڈائریکٹر ل(لیگل) رضا محسن قزلباش پیش ہوئے۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا نادہندگان کا ریکارڈ نہیں ہوتا ،کمیشن معلومات پبلک کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
چیف انفارمیشن کمشنر نے کہا 1000بڑے قرض نادہندگان کی معلومات پبلک کرنےکے حلاف نظر ثانی کی درخواست قابل عمل نہیں ۔معلومات افشاء کرنا ہوں گی۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان انفارمیشن کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں ڈیفالٹ اتنا بڑا جرم نہیں ہوتا۔ اب ڈیفالٹ بھی کم ہوگئے ہیں، کیوں کہ اب بینکوں کا اپنا سسٹم ہوتا ہے جس میں وہ پرائیویٹ طریقے سے واچ رکھتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کےحکام نے کمیشن کے معلومات پبلک کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس چوں کہ نادہندگان کا ریکارڈ نہیں ہوتا اس لیے رائٹ ٹو ایکسیس آف انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 7(D)کے تحت ہمیں معلومات پبلک کرنے سے استثناء دیا جائے۔
آدھے گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اس سماعت میں پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ اور ان کی ٹیم سے کہا کہ آپ کے پاس ریکارڈ بے شک نہ ہو، اس کے باوجود آپ اداروں کے دورے اور انسپکشن کرتے، آپ کا ایک چیک اینڈ بیلنس ہے اس لیے آپ اداروں سے یہ ریکارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔