قارئین !ہمارے ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ واضح اور غیر مبہم تحریری آئین کے ہوتے ہوئے بھی ملک میں کوئی ادارہ اپنے دائرہ کار میں محدود نہیں ،کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کی جواب دہی کو تیار نہیں ،جس کے سبب آئینی اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ملک ،جمہوریت اور سیاسی استحکام کیلئے خطرے کی علامت ضرورہے۔ شبہ نہیں کہ پارلیمنٹ آئین کی خالق ہے،اسے قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔پارلیمنٹ کا بھی وہی فیصلہ باوقار ہوگا جو آئینی طریقہ کار اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہو گا، حکمران جماعت یا کسی فردواحد کے ذاتی مفاد، سیاسی انا کی خاطر نہیں ہو گا۔ اگر اپوزیشن کو بلڈوز کر کے ،آئین و جمہوری روایات کوپامال کر کے کوئی فیصلہ کیا جائے یا صدر مملکت سے عجلت میں کوئی آرڈیننس جاری کروایا جائے تو شکوک شبہات ہی نہیں اعلیٰ عدلیہ کا نوٹس لینا بھی اسی آئین کا دیا ہوا اختیار ہے، جس کی قدر کی جانی چاہئے کیونکہ پارلیمنٹ ہو، کوئی فرد یا کوئی ادارہ جب اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا تو لازماََ آمریت در آئے گی۔ دوسری جانب عدلیہ کیلئے بھی اس بات کا خیال رکھنا لازم ہے کہ اس کے فیصلے آئین اور قانون کے تابع ہوں ،کسی انفرادی رائے یا کسی مفاد کے تابع نہیں ،دوسری جانب ایک جج کا یہ کام نہیں کہ وہ عوامی پلیٹ فارم پر اپنے فیصلوں کے حوالہ سے خطاب فرمائے، اس سے جج اور عدالت دونوں کے وقار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔لازم ہے کہ جج صاحبان آئین کے اندر رہتے ہوئے فیصلے دیں اور ان پر عمل کروانے کی خاطر تقاریر کے بجائے آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کریں ۔دونوں آئینی ادارے محترم ہیں، دونوں ہی اپنے اپنے دائرہ کار میں با اختیار ہیں لہٰذا لازم ہے کہ دونوں ہی آئین پاکستان کے احترام اور اس پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں۔ اس سے ہٹ کر جو بھی طرز عمل ہو یا فیصلہ وہ کسی مسئلہ کا حل نہیں خود ایک مسئلہ بن جائے گا۔گزشتہ چند ماہ کے دوران مقتدرہ اور سپریم کورٹ میں محاذ آرائی نظر آ رہی تھی، وہی اب پارلیمان اور سپریم کورٹ کے مابین نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل در آمد ضروری ہے لیکن سپریم کورٹ کا آئینی تشریح کے نام پر آئین سازی اور قانون سازی کا اختیار استعمال کرنا بہرحال خطرناک حد ہے ،جسے عبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح پارلیمنٹ یا حکومت اگر کسی فیصلہ سے متفق نہیں تو اسے بھی آئینی طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے ججوں پر سوال اٹھانا اور جملے بازی کرنا اتنا ہی غلط اور غیر آئینی ہے،جتنا کہ ججوں کا پبلک پلیٹ فارم پر آکر بات کرنا ۔جب تک آئین اور قانون کو مقدم نہیں مانا جائے گا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کو سیاسی بحران کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے کہا کہ ایک ادارہ پارلیمان کے کاموں میں بار بار مداخلت کرتا ہے ۔بلاول نے عدلیہ کیلئے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے نے سیاست میں چائے کی پیالی کے طوفان کو ایک بڑے بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک بلاول ہی نہیں حکومت میں شامل رانا ثنا ء اللہ، سینیٹر عرفان صدیقی ودیگر ان سب کو ڈائریکشن دینے والے بھی عدلیہ کے اس فیصلے سے پریشان ہیں جس کی زد میں آکر حکومت کی کشتی ڈانواں ڈول ہوتی نظر آرہی ہے ۔مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ جھگڑے کی اصل وجہ ہے جس نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں اڑارکھی ہیں ۔ہماری سیاسی تاریخ میں عدلیہ سے مخاصمت کوئی نئی بات نہیں ،ابھی تک صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ کی جانب سے جس کے خلاف بھی فیصلہ آجائے وہ عدلیہ پر لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف من پسندیدہ فیصلوں کو سراہنے کے اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہئے ، انصاف اور قانون کی بالادستی کو قبول کرلینا چاہئے تاکہ اختلافات ختم کر کے سب ملک وقوم کی ترقی کیلئے یکجا ہوسکیں۔اقتدار کے خاتمے کے خوف میں مبتلا سیاست دان خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو انہیں عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے ،عدلیہ کی آزادی پر حرف زنی سے اجتناب کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ایسی صورتحال پیدا ہی کیوں ہوتی ہے؟ مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک بلاول کا ہی نہیں اقتدار میں موجود سارے اتحادیوں کا عدلیہ سے شکوہ ہے۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کی رو سے فیصلے کرنا ہے اگر عدلیہ کا کوئی فیصلہ کسی کو آئین اور قانون سے ماورا لگتا ہے تو اس کیلئے بھی مناسب قانونی راستے موجود ہیں اور اس حوالے سے درخواستیں لگی ہوئی ہیں لیکن حکمران طبقے کو ایک انجانے خوف کا سامنا ہے اگر ایساہے تو حکمران اتحاد اور عدلیہ کے سابقہ فیصلے سے متفق نہ ہونے والوں کو مزید مضبوط دلائل کے ساتھ اس کیس کا سامنا کرنا چاہئے نہ کہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر عدلیہ کو دبائو میں لینے کے حربے اختیار کئے جائیں ۔
ہمارے ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ملک میں ادارہ جاتی سطح پر آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کبھی پنپ ہی نہیں پایا جبکہ ریاستی آئینی اداروں کی قیادتوں اور دوسری شخصیات نے اپنی معینہ آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کرنا کبھی گوارا نہیں کیا چنانچہ آئین کو موم کی ناک بنا کر اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے ماضی سے اب تک کئی مناظر سامنے آچکے ہیں جو پورے سسٹم کو ڈی ریل کرنے پر منتج ہوتے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اپنے ہی وضع کئے گئے کوڈ آف کنڈکٹ پر بھی کبھی عمل ہوتا نظر نہیں آیاجس کے تحت عدلیہ کے ارکان کے پبلک مقامات پر جانے سے گریز کی پابندی بھی لگائی گئی ہے جبکہ یہ ضرب المثل بھی عدلیہ سے ہی منسوب ہے کہ جج خود نہیں‘ اسکے فیصلے بولتے ہیں۔