• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7 اگست کو گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، وزیر مملکت علی ملک اور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس، جس کا میں ممبر ہوں، کے اجلاس میں ملکی معیشت پر ایک اہم بریفنگ دی۔ دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں ملکی معیشت کی کارکردگی اور درپیش چیلنجز پر بحث ہوئی۔گزشتہ دنوں اخبارات میں شائع مارکیٹ ریسرچ کمپنی اپسوس کے سروے کے مطابق 10 میں سے صرف ایک پاکستانی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ملک درست سمت کی طرف گامزن ہے۔ میرے نزدیک ملکی معیشت پر عوام کا اعتماد نہ ہونا ایک تشویشناک امر ہے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے جو میں آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق افراط زر یعنی مہنگائی جس کا براہ راست تعلق مانیٹری پالیسی اور اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ سے ہوتا ہے، اپریل 2023ءمیں ریکارڈ 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی، اب کم ہوکر 11.1فیصد پر آگئی ہے جبکہ حقیقی (Core) افراط زر کی شرح 13.8فیصد ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ سے بڑھاکر 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تقریباً ایک سال تک رکھا جسے اب کم کرکے 19.5 فیصد کیا گیا ہے اور اس کیساتھ امپورٹ کی حوصلہ شکنی کرکے افراط زر میں کمی لائی گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ 2026ءمیں افراط زر واپس 5 سے 7 فیصد کی شرح پر آجائے گا۔ ملکی معیشت میں سب سے اہم کارکردگی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی ہے جو 2022میں 17.5 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح سے 2024میں کم ہوکر 0.7 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر آگیا ہے۔ میرے سوال پر گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ مرکزی بینک نے تمام بیرونی ایئر لائنز کے واجبات، شیئر ہولڈرز ڈیوڈنڈ اور منافع ادا کردیئے ہیں۔ اس وقت بینکوں کے امپورٹ LCsکھولنے پر اسٹیٹ بینک کی کوئی پابندی نہیں اور ملکی امپورٹ جون 2023ء کے 3.2ارب ڈالر سے بڑھ کر جون 2024ء میں 4.6ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو جون 2023 کے 2.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر جون 2024 میں 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ملکی ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو جون 2023 کے 2.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر جون 2024ء میں 3.2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور گزشتہ مالی سال ہماری مجموعی ترسیلات زر 30.3ارب ڈالر رہیں جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون 2023ء کے 3.1 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح سے بڑھ کر جون 2024 میں 9.1 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے اور روپے کی قدر بھی 278روپے کی سطح پر مستحکم رہی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ہمارے بیرونی قرضے اور پبلک ڈیٹ 130 ارب ڈالر ہیں جس میں آئی ایم ایف کے نئے قرضے کی شرائط کے مطابق ہمیں 27 ارب ڈالر کے ڈیٹ کو ری شیڈول کرنا تھا جس میں سے چین، سعودی عرب اور یو اے ای نے 12 ارب ڈالر کے سیف ڈپازٹس اور کمرشل قرضے 3 سال کیلئے ری شیڈول کردیئے ہیں۔ اس سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5فیصد رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ ہدف 2.4فیصد تھا۔ پاکستان کے جی ڈی پی میں ٹیکس اور سرمایہ کاری کی شرح خطے کے ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کے مقابلے میں سب سے کم ہے جسے بڑھانا ہوگا اور جی ڈی پی میں ٹیکس کی موجودہ شرح کو 9 فیصد سے بڑھاکر 15 فیصد تک لے کر جانا ہوگا۔ گزشتہ مالی سال 2023-24ءمیں ایف بی آر کا ریونیو ہدف 9700 ارب روپے تھا جبکہ رواں مالی سال 2024-25 ءمیں 12900ارب روپے رکھا گیا ہے جو تقریباً 40 فیصد زائد ہے۔

وزیراعظم پاکستان تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں میں کمی کیلئے ترقیاتی منصوبوں (PSDP) کے فنڈز میں کٹوتی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ بہت بڑھا دیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے نے مالی سال 2023-24ءمیں ٹیکس کی مد میں 367ارب روپے ادا کئے تھے جو مالی سال 2022-23 ءکے 263.8ارب روپے کے مقابلے میں 39.42 فیصد زیادہ اور تنخواہ دار طبقے پر ناقابل برداشت بوجھ ہیں۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، جو میرے پرانے دوست بھی ہیں، سے دریافت کیا کہ 2 سے 3 فیصد جی ڈی پی گروتھ سے بلند معاشی ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی، ہمیں ملک میں ایکسپورٹ بڑھانے، صنعتکاری کے فروغ اور نئی ملازمتوں کے مواقع کیلئے 5 سے 6 فیصد گروتھ ہدف کو حاصل کرنا ہوگا جس کیلئے اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی ضروری ہے۔ بزنس کمیونٹی کی سنگل ڈیجٹ پالیسی ریٹ کا مطالبہ ہے تاکہ صنعتوں کی مالی لاگت میں کمی لائی جاسکے کیونکہ موجودہ 23 سے 24 فیصد بینکوں کے لینڈنگ ریٹ سے صنعتوں میں گروتھ ممکن نہیں۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ افراط زر کو کم کرکے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جائے گی، اسٹیٹ بینک کے 2024-28ءکی حکمت عملی (Strategic Plan) کے تحت افراط زر یعنی مہنگائی 5 سے 7 فیصد، کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم سے کم سطح پر رکھنا، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3مہینے کی امپورٹ کے برابر لانا اور بینکنگ نظام کی ڈیجیٹلائزیشن اُنکی ترجیحات ہیں۔ ملکی معیشت میں استحکام آیا ہے لیکن ہمیں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے، نہیں تو قوم معاشی ثمرات سے محروم رہے گی۔

تازہ ترین