ایک صاحب ہیںحکیم شہزاد المعروف لوہا پھاڑ، مطب کرتے ہیں اور اپنی اختراع کردہ ایک معجون پر ہمہ وقت نازاں رہتے ہیں، ہم نے ان کا نامِ گرامی پہلی مرتبہ چند ہفتے قبل اس وقت سنا جب انہوں نے عامر لیاقت مرحوم کی بیوہ کو اپنے عقد میں لیا اور سوشل میڈیا پراس ’میڈل‘ کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔کچھ دن تو وہ سوشل میڈیا پر چھائے رہے، ان کے فالوورز اور ویوز بڑھتے رہے، لیکن پھر ان کے ’میڈل‘ پر گرد پڑنے لگی، نئے بازی گروں نے نئے کرتب پیش کئے اور حکیم صاحب کے ویوز چھٹ گئے۔ حکیم صاحب پارہ صفت سوشل میڈیا کے مزاج شناس ہیں سو وہ بد دل نہیں ہوئے اور اگلے موقع کے انتظار میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ خوش قسمتی سے انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔
ارشد ندیم نے اولمپک گولڈ میڈل جیتا تو حکیم صاحب کو لگا کہ کوئی نیزہ سا ان کے کان کو چھو کر گزر گیا ہے، حکیم صاحب تڑپ کر اٹھے اور میاں چنوں ارشد ندیم کے گھر پہنچ گئے، جیب سے ایک لاکھ روپے نکالے، ارشد کو پیش کیے، اس کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ارشد پر کروڑوں روپے برس رہے تھے، ان میں حکیم صاحب کا ایک لاکھ روپیہ کہیں گم سا ہو گیا۔ حکیم صاحب کی تسلّی نہ ہو سکی لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگلے دن انہوں نے ارشد ندیم سے درخواست کی کہ وہ لاکھ روپیہ انہوں نے اپنے ہمسایے سے ادھار لیے تھے اور مہربانی فرما کر وہ رقم انہیں واپس کر دی جائے۔ اس دفعہ حکیم صاحب نے فلاح پائی، سوشل میڈیا پر مجمع ایک بار پھر اکٹھا ہو گیا، ویوز کی برسات ہو گئی۔ بعد ازاں حکیم صاحب نے میڈیا بارے ایک انتہائی بلیغ جملہ ارشاد فرمایا، کہنے لگے ’’مجھے پیسے واپس نہیں لینے، میں نے یہ ’چول‘ جان کے ماری ہے، کیوں کہ ’چول‘ بکتی ہے‘‘۔ اسے کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کرنا۔
یہ سچ ہے کہ ہم ’عہدِ چول‘ میں سانس لے رہے ہیں، ہم پانی سے چلنے والی خیالی گاڑی بنانے والے کو سائنس دان سمجھتے ہیں اور مضحک مزاج موٹیویشنل سپیکرز کو مصلح قرار دیتے ہیں، سوشل میڈیا پر جہالت کو ہوا دینے والے اجہل علمائے حق ٹھہرائے گئے ہیں، اور ٹی وی اسکرینوں پر ’چول‘ پرور اصحاب تجزیہ نگار کی مسند پر فرو کش دکھائی دیتے ہیں۔جدھر نظر دوڑائیں یہی عالم ہے سو سیاست کے افق پر بھی آپ کو ’چول راج‘ کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔آج کل فیض حمید بِک رہے ہیں، سو ہر حکیم اپنی معجون بیچنے کی کوشش میں ہے۔اس موضوع کا حق ہے کہ بات عمران خان سے آ غاز کی جائے۔ عمران سے اس لیے کہ ان کا فیض حمید سے جو تعلق تھا وہ ہماری تاریخ میں کسی وزیرِ اعظم اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے درمیان نہیں رہا، انہوں نے مل کر سیاست کی، پھر مل کر حکومت کی، اور اب مل جُل کر دس سال مزید حکومت کرنا چاہ رہے تھے۔ عمران کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے فیض حمید اتنے اہم تھے کہ ان کی خاطر عمران نے نہ صرف باجوہ صاحب سے لڑائی کی بلکہ ادارے کی پوری ہائی کمانڈ کو خفا کر دیا۔ عمران فیض حمیدکو چیف بنانا چاہتے تھے، مگر چیف بننے کی شرط تھی کہ افسر نے کورکمانڈ کی ہو، اور عمران فیض کو ایجنسی سے کور میں ٹرانسفر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ عمران کی تجویز تھی کہ ایجنسی کو ہی کور ڈکلیئرکر کے یہ شرط پوری کر لی جائے۔ پروین شاکر کو یاد کرنے کا بھلا یہ کون سا وقت ہے، بہرحال، فرماتی ہیں ’’خوش بُو کہیں نہ جائے یہ اصرار ہے بہت۔۔۔ اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے۔‘‘ افسوس کہ ادارہ عمران خان کی اس شاعرانہ صورتِ حال کی داد نہ دے سکا۔ اور پھر جو ہوا سو ہوا۔
اب فیض حمید کی گرفتاری پر حکیم الحکماء نے انتہائی مقّوی معجون پیش کیا ہے، فرماتے ہیں فیض حمید اگر نو مئی میں ملوث ہیںتو پوری تحقیقات ہونا چاہئیں۔کیا کہنے، میرے بھائی، فیض حمید پر الزام ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ مل کر، آپ کیلئے، افواج کے اندر، اور باہر سڑکوں پر ایک سازش کے تحت نو مئی برپا کیا تھا۔اور آپ ہیں کہ اعلانِ لا تعلقی فرما رہے ہیں۔ پھر عمران فرماتے ہیں کہ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کیسے؟ اگر فیض حمید کا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، اور آپ کے جیل جانے کے بعد تو بالکل ہی نہیں رہا ہو گا، تو پھر تو سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں ہو گا، اور اگر ثبوت نہیں ہو گا تو آپ کو کیا خطرہ ہے۔ خاطر جمع رکھیے، اگر صنم جاوید سے فواد چودھری تک کسی کو جھوٹا وعدہ معاف گواہ نہیں بنایا جا سکا تو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو بھی نہیں بنایا جا سکتا، ہاں اگر ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں تو الگ بات ہے۔عمران خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ان پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ عدالتیں آپ پر حد درجہ مہربان ہیں، نہ سر دیکھتی ہیں، نہ سنگ، نہ دیوار، اور نہ آئین، دھڑا دھڑ آپ کے حق میں فیصلے دیتی ہیں، مگر پھر بھی ہم کسی سویلین کا کیس ملٹری کورٹ میں چلانے کی حمایت نہیں کر سکتے،لیکن اگر آپ اور فیض حمید واقعی نو مئی کو فوج میں بغاوت اور سڑکوں پر خون خرابہ کرنے کا واضح منصوبہ رکھتے تھے اور اس کے معقول ثبوت موجود ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال، گھبرانے والی بات تو ہے، ’لوہا پھاڑ‘ موسم قریب آن پہنچا ہے، اور وہ کیا معروف ضرب المثل ہے کہ۔۔۔ہر’ ’چولے‘‘ را زوالے۔