وہ جو غالب نے کہا تھا کہ
قطرہ میں دجلہ دکھائی دے اور جز میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
’’دیدہ بینا‘‘جس کو عطا ہو جائے اس کیلئے دشواریاں ہی دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر دیدہ بینا جراحتوں کے سامان فراہم کرتا رہتا ہے اصل معاملہ یہ ہے کہ زیست کی تہہ در تہہ معنویت کی تلاش بہت مہنگا سودا ہے ہر عہد میں وہ لوگ جن کو یہ نعمت عطا ہوتی ہے صلیب و دار کی منزلوں سے گزرتے رہتے ہیں ان کے پیرایہ اظہار میں وہ تیکھا پن ہوتا ہے کہ انہیں ملمع سازوں،دنیا پرستوں اور جاہ پرستوں کی ظاہر داری برداشت ہی نہیں ہو سکتی، فیض احمد فیض کے بعد نظم اور غزل میں اس۔ ’’دیدہ بینا‘‘ کی نمائندگی پوری ذمہ داری کے ساتھ اگر کسی شاعر نے کی تو وہ بلا شبہ احمد فراز ہی ہے، فراز ہمارے عہد کا وہ ماہتاب تھا جس پر اجل کے کالے بادل ا ٓجانے کی وجہ سے جہانِ غزل ایک دم تاریک ہو گیا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مخدوم محی الدین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ شاعر کو غزل عمر کے کم سے کم 40سال پورے کر کے شروع کرنی چاہیے، مخدوم نے اشاروں میں صنف غزل کیلئے بہت اہم بات کہہ دی اس میں وہ شاعر کی مشاقی فن اور زیست کے تجربوں کی کشادگی پر اصرار کرتا ہے، غزل خیال بھی ہے اور آتش کے لفظوں میں مرقع سازی کا کمال بھی اور یہ کمال فراز نے 18 سال کی عمر میں کر دکھایا اور مقبولیت کے جس گراف تک اس کا نام روشن رہا وہ اسکے عہد میں بہتوں کو نصیب نہ ہوا۔اس پر ہم عصروں نے طرح طرح کے طنز کیے لیکن اسے فیض کی طرح ہمیشہ ثابت قدمی سے اپنی متعینہ ڈگر پر چلتے رہنے کا جنون رہا۔ اقبال اور فیض کے بعد اور بھی کئی نام ہیں لیکن فراز کو جو عزت اور مقبولیت، ملی اس کی کوئی مثال نہیں، وہ صرف عام آدمی کے دکھ درد کا غزل کار نہ تھا بلکہ خواص میں بھی جی بھر کر پڑھا جاتا تھا۔ آج جب نازش بزم سخن وساز جاناں کی یادوں کو سمیٹنے اور کاغذ پر منتقل کرنے بیٹھا ہوں تو اسکی خوش گفتار، خوش لباس اور خوش مذاق شخصیت میرے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ کئی کئی برس گزر جاتے تھے اور اس سے ملاقات نہیں ہوتی تھی مگر جب وہ ملتا تو بہت ٹوٹ کر ملتا۔ وہ کہتا تھا کہ انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اچھا ہونا چاہیے اس لیے نہیں کہ خدا یا مذہب نے ایسا کہا ہے بلکہ اس لیے کہ دونوں انسان ہیں اس نے ایک بار ایمسٹر ڈیم میں بحث کے دوران مجھے کہا، ’’ادیب کا کام دنیا بدلنا نہیں، سمجھنا ہے، ادب انقلاب برپا نہیں کرتا وہ انسانی فکر کو بدلتا ہے اور انہیں انقلاب کے تئیں بیدار کرتا ہے اس لیے ادب جانبدار بھی ہے‘‘- میرے حساب سے شاعری اگر فنکار کی ذات کا اعلامیہ یا بیانیہ ہے تو اس ذات کی کمٹمنٹ ہر لحاظ سے زندگی سے ہوتی ہے، زندگی کے ذریعہ اس کے احاطہ میں پوری دنیا سمٹ آتی ہے لہٰذا شاعر اگر خود کو لکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے وسیلے سے دنیا کو لکھ رہا ہے اور دنیا اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس کی انتہا نہیں معلوم اور اگر کچھ معلوم ہے تو بس اتنا کہ اسے دیکھتے دیکھتے سانسوں کی طناب ٹوٹ جاتی ہے۔ فراز کی غزلوں میں حسن و جمال اور غم جاناں کے علاوہ زلف و کا کل اور لب و رخسار کے ذکر کے بجائے انسانی رشتوں کی نا پائداری، اپنوں کی بے گانگی، اخلاص و محبت کی نایابی، جمہور کی حق تلفی، کینہ و حسد کی فراوانی، بغض وعداوت، کی ارزانی کے حقائق زیادہ پیش ہوئے ہیں۔ اس طرح اسکی شاعری اس کے دور کی آواز بن گئی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس کے کلام میں موسیقیت اور نغمگی بھی بھرپور ہے اس کے ڈکشن میں یہ بات بھی خاص طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ اس کی غزلوں میں ثقیل اور گرانبار الفاظ کہیں نہیں ملتے حالانکہ اس کی فارسی ادب پر مکمل دسترس تھی۔ ہم سب کو الوداع کہنے سے دو ایک ماہ قبل میری اس سے دہلی میں ملاقات ہوئی اس کے بعد جتنے دن وہ دہلی میں رہا ہم ہر روز ملتے رہے خصوصاً رات کا ملنا تو بے حد ضروری ٹھہرا۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک رات ایمسٹر ڈیم میں میرے گھر پر ابھی ہم نے گلاسوں کو ہاتھ ہی لگایا تھا کہ وہ موڈ میں آگیا کہنے لگا، ایک بات بتاؤ؟ میری کون سی بات تمہیں اچھی نہیں لگتی؟ ’’میں نے کہا‘‘ موقع پرستوں اور مقصد حاصل کرنے کیلئے چاپلوسی اور خوشامد کرنے والوں کی پذیرائی، آپ کے حلقے میں ایسے بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں‘‘ یہ سن کر اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا مگر چپ رہا۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ غالب نے موت کو ابن ادم کی میراث کہا ہے فراز کو بھی یہ میراث حاصل ہوئی لیکن نظریے اور عقیدے اس بات کے مظہر ہیں کہ انہیں صرف مانا جائے جبکہ ادب کا مطالعہ کرنے کیلئے اسے جاننا، سمجھنا اور محسوس کرنا بنیادی تقاضے ہیں۔ منزل ادب سلیقے کی منزل ہے ہم نے جو دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا اسے کتنی کامیابی کے ساتھ دنیا تک پہنچایا؟ فراز نے یہی فعل کر دکھایا ہے وہ زندہ تھا تو بھی زندہ تھا کومہ میں تھا جب بھی زندہ تھا اور اب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے تو بھی زندہ ہے۔ شاعری و ادب زندگی کا آئینہ ہے اگر زندگی کی تمام تر اچھائیوں، برائیوں، تہذیبی و معاشرتی و سیاسی کشاکش اور ہم آہنگی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے تو اسے صرف ادب و شاعری کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے سو یہی فراز کی شاعری نے کیا۔ آج دل سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ وہ ایک مثالی شخص اور زمانہ ساز شاعر تھا وہ نہ صرف یاد آتا رہے گا بلکہ فیض کے ساتھ رہ رہ کر یہ کہنے پر مجبور کرتا رہے گا۔ ’’جنہیں جرم میں عشق پہ ناز تھا وہ گنہگار چلے گئے‘‘