بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر مختلف زاویوں سے غوروخوض ،آئندہ ایسی صورتحال کی روک تھام کیلئے حکمت عملی وضع کرنے اور صوبے کے انتظامی امور کے سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کے روز کوئٹہ کا دورہ کیا۔وہاں انھوں نےآرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر،نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار،گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل،وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ،وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی اور کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بلوچستان راحت نسیم احمد سمیت اعلیٰ وفاقی و صوبائی حکام کے ہمراہ صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔متذکرہ واقعات کے تناظر میں یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں دہشت گردی کی مذمت اور ان میں ملوث سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا پیغام دیناہی کافی نہیں بلکہ بعض اور بھی پہلو ہیں۔ صوبے میں پائی جانے والی بےچینی کے اصل پس پردہ عوامل میں تعمیر بلوچستان میں عدم توجہی کا عنصرغالب ہے،جس کا خواب ہم 77برس سے محض سیاسی نعروں کی صورت میں دیکھتے چلے آرہے ہیں،لیکن اسے زمینی حیثیت دینے میں ناکام رہے۔وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کو26اگست کے واقعات کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات اور آنے والے دنوں میں ممکنہ فیصلوں سے آگاہ کیا،جن میں سب سے اہم صوبے میں بیوروکریسی کی تعیناتی کے حوالے سے پالیسی تشکیل دینا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے افسران بلوچستان آنے سے کتراتے اور بہانے بناتے ہیں،اس حوالے سے ہم نے جو پالیسی بنائی ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔وزیراعظم کے مطابق 48ویں کامن ٹریننگ پروگرام کے آدھے افسران کی بلوچستان میںایک سال کیلئے فوری تعیناتی کی جائے گی جبکہ باقی 6ماہ بعد تعینات ہوں گے۔آگے چل کر یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھے گا۔ان افسران کو دی جانے والی اضافی مراعات میں اہل خانہ سمیت ایئر ٹکٹ دینا شامل ہےجبکہ ملازمت کے دوران ایکسٹرا پوائنٹس بھی دیے جائیں گے۔وزیراعظم نے اعلان کیا کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا،دہشت گردوں سے رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور پاکستانی پرچم کو سلام کرنے والوں سے مذاکرات کرنا ہمارا فرض ہےجبکہ دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کارروائی صوبے کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ دشمن بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتااوروہ سی پیک منصوبے کو سبوتاژکرنے کے درپے ہے۔ حقیقت میں دہشتگردپاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ26اگست کو صوبے میں جو واقعہ پیش آیا ،وہ انتہائی دلخراش ہے ،جس سے پورےپاکستان کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہےلیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ افواج پاکستان بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کریں گی۔وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب کی روشنی میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان بے بہا قدرتی وسائل ہونے کے باوجود شروع ہی سے محرومیوں کا شکار چلا آرہا ہے۔سب سے بڑے رقبے پر مشتمل اس صوبے کی ترقی کیلئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔دوسرا مسئلہ جمہوری اقدار کے فقدان کا ہے،صحت مند جمہوری روایات کیلئے اس کی جڑوں کا عوام الناس تک پہنچنا ضروری ہے ۔بلوچستان میں غربت اس انتہا کی ہے کہ لوگ محنت مزدوری کیلئے سیکڑوں کلومیٹر دورپرخطر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔وزیراعظم کا صوبے میں گراس روٹ مینجمنٹ کا وژن وہاں کی صورتحال سے عین مطابقت رکھتا ہے ۔آبادیوں میں فاصلہ سہی،بہترین انتظامی امور کی مثالیں اس سے بھی بڑے رقبے کے حامل ممالک میں موجود ہیں۔