• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضا محدث بریلویؒ نے ساری زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد و عبادت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں گزاری۔آپ جب دارالافتاء میں قیام فرماتے تو اس وقت فتاویٰ قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر فرماتے، بغیر تدبر و فکر کے فتویٰ نویسی ممکن نہیں، پھر آپ کا قلم جب فتویٰ نویسی سے فارغ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے جو غور و فکر سے سامنے آتا اور قلب پر اس کی تجلیات محسوس ہوتیں انہیں قلمبند کرلیتے یعنی غور و فکر کے بعد قانون فطرت اور کرشمۂ قدرت کو مختلف علوم اور فنون کے عنوانات کے تحت عربی، فارسی اور اردو زبان کے مقالات اور تصنیفات کی شکل میں محفوظ فرمالیتے۔ 

غرض آپ کے اس طریقۂ عبادت اور وظیفۂ ذکر و فکر کے باعث متعدد سائنسی تصنیفات منصہ شہود پر آئیں، ان ہی میں علم صوتیات سے متعلق بھی ایک معرکۃ الآراء تصنیف ’’الکشف شافیا حکم فونو جرافیا‘‘ بھی ہے جو1919ء میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمائی۔ اس تصنیف میں فقہی جزئیات کے علاوہ علمِ صوتیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ آج سے ایک صدی قبل آپ بریلی شریف کی سرزمین پر فتاویٰ نویسی کے علاوہ وہ سب کچھ جانتے تھے جو کسی زمانے کا ایک ماہرِ علمِ صوتیات جان سکتا ہے۔

یہ فقیہ اسلام صرف علومِ دینی ہی نہ جانتا تھا، بلکہ دیگر سائنسی علوم کی طرح وہ علمِ صوتیات کے علم سے بھی باخبر تھا اور اس پر دسترس رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آواز کی لہریں کیا ہوتی ہیں؟ یہ آواز کی لہریں ہمیں کیونکر سنائی دیتی ہیں؟ یہ کچھ دور جاکر کیوں ختم ہوجاتی ہیں؟ یہ تیز ہوا میں کیونکر تیز چلتی ہیں؟ کیوں، کب اور کیسے ان آوازکی لہروں کی رفتار کم ہوجاتی ہے؟ ان لہروں کو کون سے عناصر دور تک لے جاتے ہیں یعنی آواز دور تک کیسے پہنچتی ہے؟ فضا میں لہریں کیونکر محفوظ ہوجاتی ہیں اور انہیں کس طرح ریکارڈ کیا جاتا ہے؟ ساتھ ہی فضا میں ان لہروں میں محفوظ الفاظ سے متعلق احادیث کی روشنی میں ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اچھے الفاظ کی لہریں قیامت تک اس شخص کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی رہیں گی۔ چنانچہ رقمطراز ہیں:’’واقع میں تمام الفاظ جملہ اصوات بجائے خود محفوظ ہیں۔ 

وہ بھی اسمِ مخلوقہ سے ایک اُمت ہیں کہ اپنے رب جل و علا کی تسبیح کرتے ہیں، کلمات ایمان تسبیح رحمٰن کے ساتھ اپنے قائل کے لیے استغفار بھی کرتے ہیں اور کلمات کفر تسبیحِ الٰہی کے ساتھ اپنے قائل پر لعنت ‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد دہم، حصہ دوم، ص:14۔،مطبوعہ کراچی)

راقم شوقِ مطالعہ رکھنے والوں کو اس بات کی دعوتِ فکر ضرور دے گا کہ وہ امام احمد رضا ؒکے ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ جو مع ترجمہ و تخریج30جلدوں میں شائع ہوچکا ہے اس کی کسی ایک جلد کا مطالعہ ضرور کریں۔ آپ کو راقم کے دعوے کی صداقت کا اعتراف ہوجائے گا۔ 

احقر یقین سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ مطالعہ کرنے والا فتاویٰ رضویہ کی ہر جلد میں ان گنت علوم کی فہرست مرتب کرتا چلا جائے گا اور وہ پھر خود اس حقیقت تک پہنچ جائے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے امام احمد رضا کو دینی علوم پر دسترس کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون خاص کر علوم سائنس پر بھی کامل دسترس عطا کی تھی۔

مسلمان سائنسدانوں کی فہرست بہت لمبی ہے، لیکن امام احمد رضا ؒجب بھی کسی دنیاوی/ سائنسی علوم پر بحث کرتے ہیں تو اس بحث کے شروع یا آخر میں یا جہاں مناسب سمجھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان اور یقین کا اظہار بھی ضرور کرتے ہیں اور وہ قاری کو اس بات کی طرف ضرور توجہ دلاتے ہیں کہ نظامِ فطرت(سائنسی قانون) ایک طرف اور اللہ کی قدرت ایک طرف اور وہ ہی مقدم کہ وہ خالقِ کُل اور مالکِ حقیقی ہے۔ 

اگرچہ کائنات کا سارا سسٹم ایک فطرت کے تحت رواں دوا ہے اور عموماً اپنی فطرت کے مطابق چلتا بھی رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ ہر آن اس سسٹم پر فوقیت رکھتی ہے اور ایک مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کی قدرت پر ایمان ضرور رکھے۔ یہاں مختصراً امام احمد رضاؒ کی دنیاوی علم پر ایک بحث کا حصہ ملاحظہ کیجئے جس میں ایک طرف قانونِ فطرت بتارہے ہیں تو دوسری طرف اللہ کی قدرت کی فوقیت کو ظاہر کررہے ہیں اور یقیناً ایک مسلمان کے ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے۔

امام احمد رضا فتاویٰ رضویہ جلد اول صفحہ547 میں ایک مقام پر پانی کی رنگت پر بحث کرتے ہوئے آبی بخارات کے اجزاء کے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ اجزاء کیونکر بادلوں کی صورت میں نظر آتے ہیں اور برف کے اجزاء اگرچہ پانی کے اجزاء سے باریک ہیں مگر کیونکر برف اوپر سے نیچے گرتی ہے؟

امام احمد رضا کی علم صوتیات پر دسترس کو ڈیرہ غازی خاں کے اسکالر ڈاکٹر محمد مالک نے تفصیل سے جائزہ لیا اور ایک کتاب ’’امام احمد رضا اور علم صوتیات‘‘ کے نام سے ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے جدید ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کو امام احمد رضا کے بتائے ہوئے قوانین سے تقابل کیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں آپ کی علم صوتیات پر گرفت ثابت کی ہے۔ امام احمد رضا محدث بریلوی ؒنے ایک صدی قبل 1909ء میں اپنے رسالے ’’الکشف شافیہ حکم فونو جرافیا‘‘ میں اپنے مشاہدات کی بنا ءپر فکر انگیز تحقیق پیش کی تھی۔

آپ اپنے علم کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے اتنے مخلص تھے کہ سائل سوال اگر تفصیل سے نہیں بھی کرتا یا سائل کے سوال میں اس علم کی تحقیق مدنظر نہ بھی ہوتی مگر امام احمد رضا اس سائل کے جواب میں آنے والے زمانے کے تشنہ لوگوں کی پیاس کا بندوبست فرمادیتے اور یہ بھی ثابت کردیتے کہ کسی بھی سوال کا جواب سو فیصد اس وقت ہی صحیح ہوسکتا ہے جب اس علم کو مفتی جانتا ہو۔ اگر مفتی اس علم کی گہرائی اور گیرائی سے واقف نہیں تو وہ سرسری جواب تو دے سکتا ہے ،مگر غلطی کا احتمال رہ جاتا ہے۔

مثلاً اگر مفتیان کرام سے یہ سوال کیا جائے کہ تیمم کے لیے کیا شرائط ہیں تو سب کا متفقہ جواب ہوگا کہ پتھر، مٹی، چاک۔ پھر وہ پتھروں کو گنوادیں گے کہ یہ پتھر ہے ان پتھروں سے تیمم ممکن ہے اور جو پتھر نہیں ان سے تیمم بھی نہیں ہے اور جب ایسا کوئی مسئلہ سامنے آیا کہ کوئی شے پتھر ہے یا نہیں تو عمومی فیصلہ یہ دیا جائے گا کہ اگر وہ قسم پتھر سے تعلق رکھتا ہے تو اس سے تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔ مگر یہ جواب کوئی بھی نہ دے گا کہ وہ پتھر کیوں ہے اور کیوں نہیں۔ 

ہاں وہ ہی مفتی جواب دے سکے گاجسے پتھر بننے کے تمام عمل معلوم ہوں گے۔ امام احمد رضا ان ہی مفتیوں میں شامل ہیں جو پتھر کے بننے کے عمل سے بھی واقف ہیں چنانچہ مرجان یا مونگا جسے coral بھی کہا جاتا ہے ،آپ نے طویل تحقیق کے بعد اسے چٹان میں شامل کیا ہے۔ وہ اپنے رسالہ ’’المطر السعید علی بنت جنس الصعید‘‘ میں ایک جگہ محشی رملی کے جواز کا موقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’’مرجان ؍ مونگا دوسرے پتھروں کی طرح ایک پتھر ہے جو سمندر میں درختوں کی طرح بڑھتا ہے، اس لئے عامہ کتب میں جواز پر جزم ہے ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ، جدید ایڈیشن، جلد3، ص:686)

اسی طرح جب ایک سائل نے فونو گراف سے متعلق سوال کیا توآپ ایک عام مفتی کی طرح ۴ لائنوں میں جواز یا عدم جواز کا فتویٰ نہیں دیتے، بلکہ آپ نے علم صوتیات کے ماہر کی حیثیت سے اس بات کا جائزہ لیا کہ آواز کی حقیقت کیا ہے اور یہ کس طرح فضا میں سفر کرتی ہے اور کانوں تک کیسے پہنچتی ہے وغیرہ ، اس جواب کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے:’’یہاں ہمیں دو باتیں بیان کرنی ہیں ایک یہ کہ فونو گراف (Gramophone) سے جو آواز آتی ہے وہ بعینہٖ (Same) اس آواز کنندہ کی ہوتی ہے جس کی صوت (آواز) اس میں بھری ہے۔ قاری ہو، خواہ متکلم، خواہ آلۂ طرب وغیرہ۔ دوسرے یہ کہ بذریعہ تلاوت جو اس میں ودیعت ہوا پھر بتحریک آلہ (Instrument) جو اس سے ادا ہوگا سنایا جائے گا حقیقتاً قرآن عظیم ہی ہے۔ اب ہم ان دو دعووں کو دو مقدموں میں روشن کریں گے۔

مقدمہ اولیٰ کا بیان ان امور کی تحقیق چاہتا ہے:(1) آواز کیا چیز ہے؟ (2)کیونکر پیدا ہوتی ہے؟ (3) کیونکر سننے میں آتی ہے؟ (4) اپنے ذریعے حدوث کے بعد بھی باقی رہتی ہے یا اس کے ختم ہوتے ہی فنا ہوجاتی ہے؟ (5)کان سے باہر بھی موجود ہے یا کان ہی میں پیدا ہوتی ہے؟ ( 6) آواز کنندہ کی طرف اس کی اضافت کیسی ہے، وہ اس کی صفت ہے یا کسی چیز کی ؟ (7)اس کی موت کے بعد باقی رہ سکتی ہے یا نہیں؟۔(فتاویٰ رضویہ، جلد10، حصہ دوم، ص:11)

امام احمد رضاؒ نے علمِ صوتیات کی روشنی میں کس طرح خود قائم کردہ سات سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اس کے لیے آپ کا رسالہ الکشف شافیہ ضرور ملاحظہ کیجیے اور ان کے اس رسالے کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹرمحمد مالک کی کتاب ’’امام احمد رضا اور علمِ صوتیات‘‘ کا مطالعہ امام احمد رضا کے رسالے کو سمجھنے میں اور آسانی پیدا کردے گا ،کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے تمام عربی مصطلحات کا انگریزی ترجمہ کردیا ہے ،اس لیے دورِ حاضر کے سائنسدان خصوصاً سائنس کے اسٹوڈینٹس اس سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔