• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معیشت کی تشکیل اور تصورِ بلاسود بینک کاری

ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری

عہد حاضر میں معیشت کے فروغ کے لیے مالیاتی بینکوں کا کلیدی کردار ہے۔سرمائے کے بغیر کوئی بھی کاروبار ممکن نہیں۔ سرمایہ کے بغیر تجارت کا تصور بے کارو محال ہے۔ اسی لیے روزبروز نئے بینک قائم ہورہے ہیں جو نئے نئے کاروباری امور کو بڑھانے، کارخانوں، ملوں کو چلانے، نیز چھوٹی بڑی صنعت و حرفت کے لیے تاجروں کو مخصوص شرائط پر سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ 

آج الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے، آج کے بزنس مین کومنٹوں میں دنیا بھر سے تجارتی لین دین کرنا پڑتا ہے،جس کی وجہ سے پیشگی اقتصادی منصوبہ بندی از حد ضروری ہے یعنی موجودہ دورقبل از وقت اقتصادی منصوبہ بندی کا متقاضی ہے، جو اس سے غافل رہا،اس کی کاروباری ترقی تو دور‘ اُلٹاکاروباری نقصان ہو گا ۔ 

اقتصادی منصوبہ بندی میں منصوبے کی تکمیل کے لیے کن ذرائع سے رقم حاصل کی جاسکتی ہے، اس پر بھی خیال رکھا جانا ضروری ہے اور اس کا سب سے آسان اور اہم طریقہ بچت ہے، یعنی ملک میں بچت کی حوصلہ افزائی کی جائے، بچت ہوگی تو سرمایہ جمع ہوگا، سرمایہ جمع ہوگا تو کاروبار و تجارت میں لگے گا جس سےتجارت پروان چڑھے گی،اس مقصدکے حصول کے لیے آج شہر شہر گاؤں گاؤں بینکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ 

بینک بچت کے سلسلے میں عوام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کی رقوم ایک متعین منافع کی شرح سود پر بینکوں میں جمع کرتے ہیں اور پھر اس کثیر سرمایہ کودوسرے تاجروں، صنعت کاروں کو اپنے متعینہ منافع شرح سود پر قرض دیتے ہیں، یہاں تک کہ اب بینک چھوٹے چھوٹے کاریگروں، معمولی دکانداروں، گائوں دیہات کے افراد کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے بھی اسی شرط پرقرض دے رہے ہیں۔

اس سارے پروسس میں شرح منافع سود کا عنصر ایک غیر شرعی اقدام ہے جو غیر مسلموں سے ہمارے یہاں درآیا،اس سے چھٹکارا از حد ضروری ہے کہ اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔قرآن کریم میں فرمایا گیا:”اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود“۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سودکے متعلق لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

ایک حدیث شریف میں فرمایا‘ سود (کا گناہ)ستّر(۷۰) حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔

سود کے متعلق گناہ اور اس پر وعیدیں تو ہم سنتے رہتے ہیں مگر اس سے بچا ؤ کی تدبیر نہیں کرتے جس کے سبب ہمیں زوال کا سامنا ہے۔ نباض قوم مسلم‘ حضرت امام احمد رضانوراللہ مرقدہ نے نظریہ بلا سود بینکاری پیش کرتے ہوئے اس لعنت سے بچنے اور غیر سودی نفع حاصل کرنے کے مناسب طریقے بیان فرمائے ہیں،اگر ان پر عمل کیا جائے تو یقیناً سود سے بچا جا سکتا ہے۔

آپ نے اپنے رسالہ ’’تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ میں مسلم قوم کی معاشی ترقی کے لیے جو چار نکات پیش فرمائے ہیں، وہ تجارت، معاشیات اوربلا سود بینکاری کے نظریے کے اعتبار سے بڑے ہی گراں قدرو اہم ہیں ۔ امام احمد رضاؒ نے غیر سودی اسلامی بینک کے ذریعے نفع لینے کے مختلف طریقوں کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔

آپ نے رسالہ ’’تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ میں جو چار نکات پیش فرمائے ہیں ،اس میں لکھا ہے کہ سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے، مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ(ہماری کتاب) ’’کفل الفقیہ الفاہم‘‘ میں چھپ چکا ہے۔

’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘امام احمد رضاؒ کی وہ معرکۃ الآراء تصنیف ہے ،جسے انہوں نے۱۹۰۵ء میں اپنے دوسرے حج و زیارت کے موقع پر مکۃ المکرمہ کے قیام کے دوران چند گھنٹوں میں تحریر فرمایا ۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ حرم کے حنفی امام احمد شیخ عبدﷲ میرداد بن شیخ الخطباء شیخ احمد ابو الخیر ؒ نے کرنسی نوٹ سے متعلق امام احمد رضا کو بارہ سوالات پیش کر کے ان کے جواب چاہے تھے۔ 

امام احمد رضاؒ نے ہر سوال کا ایسا جواب دیا کہ حرمین شریفین کے فقہائے کرام نہ صرف مطمئن ہوکر آپ کی فقاہت اور ذہانت دیکھ کر حیران ہوگئے ،بلکہ آپ کی علمی و فقہی قابلیت کے عقیدت مند ہو گئے۔ اس رسالے میں امام احمد رضا نے ثابت کیا ہے کہ کرنسی نوٹ قیمتی مال ہے‘ رسید نہیں۔ 

اسلامی نظام کے نفاذ اور اقتصادی نظام نیز بینکوں کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے یہ ایک عظیم نعمت ہے۔ مسلم علماء میں امام احمد رضاؒ ہی کی ذات ایسی ہے جنہوں نے پہلی بار کرنسی نوٹ کے جواز کا فتویٰ دیا ۔ یہ بھی عالم اسلام پر ان کا ایک عظیم احسان ہے ۔ ان کی ہر تصنیف سے ان کے کارنامہء تجدید کی شعاعیں پھوٹتی اور عالم اسلام میں پھیلتی نظر آتی ہیں۔ 

امام احمد رضا ؒنے رسالہ ’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘ فصیح عربی میں لکھا تھا جسے ان کے فرزند اکبر حجۃ الاسلام علامہ محمد حامد رضا خاںؒنے اردو میں ترجمہ کیا،جو ادارئہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی کے علاوہ پاک و ہند کے کئی ادارے شائع کر چکے ہیں۔ اس میں امام احمد رضا ؒ نےنظریہ بلا سود بینکاری پیش کرتے ہوئےاس طرح کے کئی طریقے بتائے ہیں کہ کس طرح ایک مسلمان اپنے روپیہ پیسہ پر کسی دوسرے سے زیادہ روپیہ پیسہ لے سکتا ہے اور وہ سود بھی نہ ہو، مثلاً:

”(۱)… ایک شخص کے دوسرے شخص پر دس روپے آتے تھے۔ اس نے چاہا کہ دس کے تیرہ کرلوں ایک میعاد تک۔ علماء نے فرمایا کہ وہ مدیون سے ان دس کے عوض کوئی چیز خرید لے اور اس پر قبضہ کرلے پھر وہی چیز اس مدیون کے ہاتھ سال بھر کے وعدے پر بیچ ڈالے تو حرام سے بچ جائے گا اور اس کا مثل نبی کریمﷺ سے مروی ہوا کہ حضورﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ (قاضی خان 406/2 مطبوعہ نول کشور لکھنو) اسی طرح بحر الرائق میں بحوالہ خلاصہ نوازل امام فقیہ ابو اللیثؒ سے مروی ہے‘‘ ۔اسی طرح اور بھی طریقے بیان فرمائے ہیں۔ اس طرح کے حیلہ کو امام محمدؒ نے بیع عینہ کا نام دیا ہے۔ حضرت امام ابو یوسف ؒ نے عینہ کو جائز کہا ہے اور اس پر ثواب بھی بتایا ہے، اس لیے کہ اس میں حرام یعنی سود سے بھاگنا ہے۔

(۲)…کسی نوٹ کی بیع کم زیادہ کو جائز ہے یا نہیں، امام احمد رضا لکھتے ہیں: ’’ہاں نوٹ پر جتنی رقم لکھی ہے اس سے زیادہ یا کم کو جتنے پر رضامندی ہوجائے، اس کا بیچنا جائز ہے‘‘۔

(۳)…امام احمد رضا لکھتے ہیں کہ ایک روپیہ ایک اشرفی کو بلکہ ایک ہزار اشرفیوں کو بیچنا جائز ہے۔

امام احمد رضا کے نظریہ بلا سود بینکاری کو اپناتے ہوئے اگران اصولوں پر بینکنگ نظام چلایا جائے اور کھاتہ داروں کی جمع کردہ رقم پر ان کے بتائے ہوئے شرعی حیلوں سے زیادہ رقم دی جائے تویقیناً جائز ہوگی… لہٰذا بلا سود بینکاری کے ذریعے بچت کھاتہ اور ایک مخصوص مدتی رقم فکسڈ ڈپازٹ پر نفع دیا جاسکتا ہے اور جمع شدہ سرمائے سے مسلم تاجروں اور صنعت کاروں کو قرضے بھی نفع پر دیے جاسکتے ہیں… اس طرح مسلم تجارت اور صنعت و حرفت کو فروغ ملے گا، قومی معیشت مستحکم کی جاسکے گی اورعام مسلمان یا حکومتِ اسلامیہ کو کسی اور کے آگے جھولی پھیلانےاور گڑگڑانے سے نہ صرف نجات ملے گی بلکہ مسلمان خود تجارت کے قابل ہو گا، اپنی فرموں اور انڈسٹریوں میں اپنے لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرے گا، جس سے مسلمان اپنی کاریگری، صلاحیت اور محنت کو زیادہ بہتر طریقے سے بروئے کار لاسکے گا جو مسلم معاشرے اور گھرانوں میں خو شحالی کا سبب ہوگا…امام احمد رضاؒ قوم مسلم کو کفر و شرک کی ہرسازش و پابندی سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے ،اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو معاشی طور پر مضبوط ہوکر سیاسی اور سماجی اعتبار سے مضبوط اور طاقت ور ہونے کی تلقین کی جو تجارت اور صنعت و حرفت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔انہوں نےاپنے رسالے ’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘ میں اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ خریدوفروخت میں کوشش کرنا سنت رسولﷺ ہے اور سنت پر پابندی سے عمل کرنا مسلمان کی نشانی ہے۔