27 اگست دہشتگردی کی ملکی تاریخ کے بدترین کارروائیوں میں شمار ہوتا ہے جس نے پاکستانیت کے تصور کو نقصان پہنچانے کے ساتھ اس سوچ کو پارہ پارہ کردیا ہے جب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر درجنوں بےگناہوں کاخون بہایا، موسیٰ خیل میں غیر ملکی اسلحہ سے لیس ان دہشتگردوں نے مسافر بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد گولیوں سے بھون دیا۔اس دوران ایسے کئی مناظر دیکھنے میں آئے جب بچوں کے سامنے ان کے باپ کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ ان کا فرقہ، علاقہ اور زبان وہ نہیں تھی جو دہشتگردوں کی تھی۔انتہا پسندی کے ایسے واقعات کوئٹہ،سبی، قلات، پنجگور، تربت، مستونگ، بیلہ اور گوادر میں رونما ہوئے شہری اور سیکیورٹی ادارے کے جوان شہید ہوئے اور کئی دہشتگرد بھی مارے گئے۔اخبار اور سوشل میڈیا کے ذرائع کا دعویٰ ہے دہشتگردی کے ان تمام واقعات کی ذمہ داری بھارت کی زیر اثر بینڈ عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی-ایل-اے) نے قبول کر لی ہے جو پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں علیحدگی پسند عناصر کی پرورش اور انہیں طاقتور بنانے کی کوششوں میں ہیں۔یہ قوتیں بلوچستان میں بی-ایل-اے اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ذریعے اپنے پاؤں پھیلانے کی کوششوں میں ہیں۔عمران خان کے ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کرنے کا ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ بانی اور پی-ٹی-آئی کی ذیلی قیادت کی جانب سے بلوچستان میں دہشتگردی کی مذمت نہیں کی گئی لیکن منافقانہ طرز گفتگو اپناتے ہوئے اس دہشتگردی کو علاقائی سیاست سے جوڑ کر مبہم الفاظ میں دہشتگرد گروہ کی حوصلہ افزائی کی ہے بالکل اسی طرح جیسے 9مئی کی بغاوت کو درست قرار دیتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی-ٹی-آئی) کی ریاست دشمن پالیسیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس پارٹی کی جو صرف بانی پی-ٹی-آئی عمران خان کی ’’خواہشات‘‘ کے مطابق کام کرتی ہے، جس کے تحت پارٹی کی تمام تر ہمدردیاں اور حمایت ملک دشمن عناصر اور دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔زیرک سیاستدان اپنے تجزیوں اور تجربوں کی بنیاد پر عمران خان کو پاکستان دشمن قوتوں کا ایجنٹ قرار دیتے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پاکستان کو مٹانے کا مشن آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جسے وہ بطریق احسن مکمل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔بھارت کے ایک معروف دفاعی تجزیہ کار میجر (ر) گاؤرو آریا نے گزشتہ دنوں انکشاف، دعویٰ یا پیشن گوئی کی ہے کہ عمران خان نے ہر حال میں جیل سے باہر نکلنے اور اپنا ’’ادھورا مشن‘‘ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی کوشش یہی ہوگی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی طرح ملک بدر کر دے اور امریکہ یا برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کر کے پاکستان کے خلاف کھل کر کھیل سکیں۔ میجر (ر) گاؤرو آریا نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک تو عمران خان پی-ٹی-آئی کی لیڈرشپ سے مایوس ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے انہیں جیل سے نکالنے کے لئے کوئی کامیاب تحریک نہیں چلائی اور پارٹی کو مضبوط اور فعال بنانے کی بجائے باہمی اختلافات سے کمزور کیا۔میجر آریا نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ عمران خان امریکی ایجنسی سی-آئی-اے کے لئے کام کرتے ہیں لیکن انہوں نے امریکہ کی خواہش پر اپنے دور اقتدار میں صرف سی-پیک بند کروانے اور مقبوضہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی اس کے علاوہ ایٹمی پروگرام ختم کرانے،فوج کو متنازع اور کمزور بنانے اورملک کو تقسیم کرنا باقی تھا جس کے لئے عمران خان کا ملک بدر ہونا ضروری ہے کیونکہ ان کا اقتدار میں آنا اور مشن مکمل کرنا بعید از قیاس ہے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے طور پر جیل سے باہر آنے کی کوششیں شروع کردی ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے معافی مانگنے کے علاوہ اپنے بدترین سیاسی اور نظریاتی مخالفین سے بھی ہاتھ ملا لیا ہے اور باقی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم-کیو-ایم سمیت ان تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں سے ہاتھ ملانے اور ساتھ چلانے کے لئے تیار ہیں۔دوسری جانب عمران خان نے بھول کر کہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے جیل میں کیا نہیں کیا، آج جیل میں خصوصی مراعات مانگ رہے ہیں۔ عمران خان سیاست کی اخلاقیات سے عاری ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ پارٹی کی مقبولیت میں کمی دیکھنے میں میں آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر طرز سیاست اور ذاتی اختیارات کی کشمکش دوڑ میں ایک دوسرے کو کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ان کی سیٹوں سے برطرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔صاحب نظر سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ انہی اختلافات پر پارٹی کے بنیادی ڈھانچے میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور عمران خان کا ریت کا یہ محل رفتہ رفتہ زمیں بوس ہورہا ہے!