پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں پاکستانیوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔بولان کی پہاڑیوں سے مردہ جسم مل رہے ہیں،سیاسی عدم استحکام،معاشی ابتری، اور قدرتی آزمائشوں نے وطن عزیز کو گھیر رکھا ہے، ایران جانے اور وہاں سے واپس آنیوالے زائرین اور اندرون ملک سفر کرنے والوں کی گاڑیوں کے اندوہناک حادثوں نے ملک کے طول و عرض میں صف ماتم بچھا دی ہے۔یہ ارض پاک ان دنوں بے گناہ ہم وطنوں کے خون سے لہو لہان ہے اور پوچھ رہی ہے کہ عزم استحکام کے جو اعلانات کئے گئے تھے وہ کہاں ہیں؟۔ خارجیوں نے غیرعلانیہ طور پر پورا ملک یرغمال بنا رکھا ہے،ریاستی رٹ کا یہ عالم ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں پولیس کےجوانوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا مورال کس نہج پر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ خصوصی طور پر بلوچستان کے حالات زیادہ دگرگوں ہیں۔جہاں کچھ روز قبل خارجیوں نے رات کے وقت کئی مقامات پر حملے کر کے سیکورٹی فورسز کیلئے چیلنجز بڑھا دیئے۔ موسیٰ خیل، قلات، مستونگ اور بولان کے علاقوں میں تخریبی کارروائیوں کے ذریعے تین درجن سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں قومی شاہراہ کی ناکہ بندی کر کے خارجیوں نے پنجاب سے آنیوالی بسوں کو روکا مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور ان میں سے 23 بے گناہ افراد کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا ان تمام افراد کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ کیا یہ صورتحال اب تقاضا نہیں کرتی کہ ایک ہمہ گیر آپریشن استحکام فوری شروع کیا جائے؟ انہی تخریبی عناصر نے 10 بسیں چھ ٹرک اور سات دوسری گاڑیاں بھی نذر آتش کر دیں۔ کول پور کے قریب ایک رابطہ پل کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس سے بلوچستان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان ریلوے ٹریفک معطل ہو کر رہ گئی۔ بلوچستان میں ہی کھڈکوچہ کے علاقے میں لیویز تھانے پر حملہ کر کے اسکا ریکارڈ اور املاک جلا دی گئیں۔ قلات میں بھی ایک معزز شخصیت کے گھر پر حملہ کیا گیا یہ وطن عزیز کے ایک حصے کی چند دن کی تصاویر ہیں جو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی ہیں۔کچے کے ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن کئی سال سے جاری ہے یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈاکو ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟ایک ایسی ریاست جو لوگوں کے واٹس ایپ اور ان کی نقل و حمل تک کا مکمل ریکارڈ رکھتی ہے لیکن کئی دہائیوں سے کچے کے ڈاکو صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی حکومتوں کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ پولیس کے جوان قربانیاں دے رہے ہیں اور انہیں اغوا کر کے اپنی مرضی کے مطالبات منوائے جا رہے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ وزارت داخلہ میں ویڈیو کال کر کے اپنی وضاحت دے رہے ہیں یا وضاحت طلب کر رہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز بھی ان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کرنے میں مصروف ہیں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 12خارجی دہشت گرد واصل جہنم کیے جا چکے ہیں۔ دہشت گردوں کے قبضے سے نائٹ ویژن کیمرے اور غیر ملکی جدید اسلحہ برآمد ہوا ہے جس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ انہیں بھارت اور افغانستان کی معاونت حاصل ہے جسکا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور پاک چین اقتصادی راہداری کی منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے مسافر بسوں، تھانوں، ہوٹل، پل، ٹول پلازہ اور اسپتال پر حملوں سے انکے عزائم کی شدت اور ٹارگٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے دہشت گردی میں ملوث عناصر کے اصل ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور انہیں بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔پاکستان کے پرامن شہری بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ ٓاپریشن عزم استحکام جس کی نوید سنائی گئی تھی وہ کہاں ہے؟۔ریاست پاکستان اس وقت جن ہمہ جہت مشکلات سے دوچار ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ اب تمام ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھیں۔ ایک طرف تو سیکورٹی فورسز خارجیوں کیخلاف ایک بھرپور آپریشن لانچ کریں کہ جس میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تو دوسری طرف بلوچستان کے ناراض قبائلیوں سے مکالمے کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے۔کیونکہ بلوچستان طویل عرصہ سے بدامنی کا شکار ہے۔یہاں کے قدرتی وسائل اور مخصوص جغرافیہ اس صوبے کیلئے ایک آزمائش بن چکا ہے۔کئی غیر ملکی طاقتیں باہم برسر پیکار ہیں جنکا میدان جنگ بلوچستان کی سرزمین ہے۔اور ستم یہ ہےکہ امن کی بحالی کی کوششوں میں مقامی سول قیادت لاتعلق ہے۔بے روزگاری،انفرا سٹرکچر کی عدم دستیابی،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور مصنوعی سیاسی عمل نے بلوچ نوجوانوں کو ناراض کر دیا ہے۔بلوچستان کا اجتماعی شعور ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہا ہے لیکن اب معروضی حالات بلوچوں کو دشمن کی پناہ گاہ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔لہٰذا تمام بلوچوں کو دہشت گرد سمجھنے کے بجائے انکے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور انکو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں تو حالات میں بہتری ا ٓسکتی ہے تمام ناراض قبائلیوں کو مکالمے اور بات چیت کے ذریعے قریب لانا بہت ضروری ہے۔کیونکہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے ناراض بچوں کو سینے سے لگانا ماں کا وصف ہوتا ہے۔بلوچستان میں حقیقی سیاسی عمل کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے کسی بھی مقبول سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانا اس کی آوازیں بند کرنا ملک کی خدمت نہیں ہوگی بلکہ اس سےنفرت میں ہی اضافہ ہوگا۔اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ موقف اپنانے اور ریاست کی پشت پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔