سٹیزن پولیس لائیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق سربراہ احمد چنائے اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد بھی آن لائن فراڈ کا شکار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
آن لائن فراڈ کے کیسز ہزاروں کی تعداد میں ہیں، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پولیس اور دیگر ادارے داد رسی نہ کرسکے۔
ایف آئی اے میں ہزاروں شکایات آتی ہیں بمشکل چند سو کا معاملہ ایف آئی آر تک پہنچتا ہے، آن لائن فراڈ کا نشانہ بننے والوں کو انصاف ملنا اور ازالہ ہونا تقریبا ناممکن۔
جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں آن لائن فراڈ کا شکار افراد کی بے بسی کا مسئلہ سامنے آگیا۔
سی پی ایل سی کے سابق سربراہ احمد چنائے اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد بھی آن لائن فراڈ کا شکار ہوچکے ہیں۔
جیو نیو ز سے گفتگو میں احمد چنائے نے بتایا کہ سی پی ایل سی کا سربراہ ہونے کے باوجود وہ ایک ماہ سے انصاف کےلیے بھاگ رہے ہیں مگر کہیں داد رسی نہیں ہو رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نومبر میں وٹس ایپ گروپ میں شامل ایک نمبر سے کال آئی جس سے میرا وٹس ایپ ہیک ہوا، تھوڑی دیر بعد مختلف لوگوں کی مجھے کال آئیں کہ آپ مشکل میں ہیں اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔
سابق سربراہ سی پی ایل سی نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں نے مجھے رابطہ کرکے پوچھ لیا اور تصدیق کرلیا وہ تو محفوظ رہے، ایف آئی اے میں آن لائن شکایت درج کرائی تھی، ساری تفصیل فراہم کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ گزر چکا ہے اور مجھے جواب ملا ہے کہ تمام ملزمان پکڑے جاچکے ہیں، سائبر ایشوز پر کام کرتا رہا ہوں، ہمیں منٹ نہیں لگتے تھے اور معاملہ حل ہوجاتا تھا۔
آئی ٹی ایکسپرٹ رانا شہزاد قیصر نے بتایا کہ ہیکرز شہریوں میں موجود لالچ کے عنصر کا فائدہ اٹھا کر لوٹتے ہیں، جلد دولتمند بننے کی خواہش انہیں ہیکرز کے لیے آسان شکار بناتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ شکایت درج کرانے کے بعد شکایت کنندہ کو ایک میسج موصول ہوتا ہے، شکایت کی انکوائری ہوتی اور معاملہ ایف آئی آر کی طرف جاتا ہے۔
آئی ٹی ایکسپرٹ نے مزید کہا کہ سائبر کرائم پر شکایت درج کرنے کا اختیار پولیس کو بھی دیا جائے، ہمارے پاس ٹیکنالوجی کے لحاظ سے فارنزک ایکسپرٹس کی کمی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایسی شکایت آتی ہے کہ کوئی بینک اکاؤنٹ کمپرومائز ہوچکا ہے، ادارہ بینک کو ایک درخواست بھیجتا ہے۔