بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
قومی اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ میں آج اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہوں، یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی آج ابھی اس پریس کانفرنس میں بتا رہا ہوں۔
اختر مینگل کا کہنا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، میں ریاست، صدر، وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی مدت کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ آؤں گا، بلوچستان پر اپنا اٹل فیصلہ سناؤں گا، بلوچستان کے مسئلے پر سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمراں اور ایلیٹ طبقے کو بلوچستان پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا چاہیے تھا، میری اور اچکزئی کی شکلیں ان کو برداشت نہیں، میرا مقصد تھا کہ اسپیکر کو بولوں کہ میری باتوں کو تحمل سے سنیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ اسلام آباد میں لانگ مارچ کر کے آنے والوں پر لاٹھی چارج کیا گیا، واٹر کینن چلائی، بلوچستان کے حالات دیکھ کر فیصلہ کر کے آیا تھا، میں پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں، جب بھی اس مسئلے پر بات کرو تو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ نے کہا کہ 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے ان سے معافی مانگتا ہوں، قومی اسمبلی اجلاس میں آج میری تقریر سن لی جاتی تو استعفیٰ وہاں پیش کرتا مگر افسوس وہاں اظہارِ خیال نہیں کرنے دیا گیا، یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی اس میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟
اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ اسپیکر آفس میں جاکر جمع کروا دیا، ان کا استعفیٰ سیکریٹری قومی اسمبلی نے وصول کیا۔
سردار اختر مینگل کی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں جا کر بیٹھیں گے جو محنت مزدوری اور کھیتی باڑی ہے کریں گے۔
اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل بھیج دیں، کوٹ لکھپت بھیج دیں یا مچ بھیج دیں ان کی مرضی ہے، یہ میرے ضمیر کا فیصلہ ہے، واپسی کے راستے انہوں نے سب بند کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم واپس مڑ کر پارلیمنٹ آئے تھے، پارلیمنٹ میں راستے بند کیے جاتے ہیں تو جائیں گے کہاں؟
واضح رہے کہ اختر مینگل این اے 256 خضدار سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔