اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاقی حکومت کیلئے ایک سرپرائز ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے چند دن قبل اختر مینگل کو کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اختر مینگل نے وزیراعظم کو یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ میں تو اسٹیک ہولڈر ہی نہیں، میری پارٹی کے پاس تو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ہے، زیادہ نشستیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں، اس لئے وہی اسٹیک ہولڈر ہیں، بلوچستان کا مسئلہ بھی یہی جماعتیں حل کریں۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے اختر مینگل کا انکار خطرے کی گھنٹی تھی لیکن حکومت کو اس گھنٹی کی آواز ہی سنائی نہیں دی کیونکہ اس حکومت کی اپنی حالت ایک ایسی گھنٹی کی ہے جسے کوئی اور اپنی مرضی کے مطابق بجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے سال تک اختر مینگل کی جماعت شہباز شریف کی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ صرف ایک سال میں ایسا کیا ہوا کہ اختر مینگل ناصرف شہباز شریف سے مایوس ہو گئے بلکہ انہوں نے قومی اسمبلی سے بھی استعفیٰ دے دیا؟ شہباز شریف کو یاد ہو گا کہ جب مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہباز شریف کے ساتھ آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل، خالد مگسی، شاہ زین بگٹی اور کچھ دیگر رہنمائوں کو مارگلہ روڈ اسلام آباد کے ایک سیف ہائوس میں بلایا اور تحریک عدم اعتماد واپس لینے کیلئے کہا۔ خالد مگسی نے بڑی عاجزی سے کہا کہ اگر سارے فیصلے آپ نے ہی کرنے ہیں تو بہتر ہے ملک میں مارشل لاء لگا دیں۔ اختر مینگل نے اس اجلاس میں کافی سخت لہجہ اختیار کرلیا جس پر باجوہ کو دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا اور انہوں نے کہا کہ مجھے وزیراعظم نے کہا ہے کہ آپ تحریک عدم اعتماد واپس کرا دیں تو میں نئے انتخابات کا اعلان کر دوںگا۔
اختر مینگل کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر ذرہ برابر اعتماد نہیں تھا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد اختر مینگل نے عمران خان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا وعدہ سرفہرست تھا۔ اس تحریری معاہدے کے تحت اختر مینگل نے اپنے چار ووٹ عمران خان کے پلڑے میں ڈالے۔ دو سال تک عمران خان نے کوئی وعدہ پورا نہ کیا تو انہوں نے عمران خان کی حکومت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور بعد میں انہی چار ووٹوں کی مدد سے شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد شہباز شریف بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ کرسکے۔ اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ شہباز شریف پر نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست اور ریاست پر عدم اعتماد ہے۔ اختر مینگل کے استعفے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ یہ استعفیٰ وفاق کیلئے نیک شگون نہیں لیکن مریم نواز کی نگرانی میں چلنے والے مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا سیل نے اختر مینگل کو غدار اور دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) دراصل وسطی پنجاب کی جماعت بن چکی ہے اور اس کے کئی حامی آج کل پنجابی کارڈ کھیلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پنجابی زبان اور پنجابی کلچر سے محبت بڑی اچھی چیز ہے لیکن پنجابیت کے نام پر دوسری قومیتوں کے خلاف نفرت پھیلانا دراصل پاکستان دشمنی ہے۔ پنجاب کے اکثر دانشور بلوچستان کے مسائل کی ذمہ داری وہاں کے سرداروں پر ڈالتے ہیں۔ ہمارے یہ پنجابی ارسطو تھوڑی مہربانی کریں اور اپنے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیں۔ 21 جون 1972ء کو بلوچستان اسمبلی میں سرداری نظام کے خاتمے کی ایک قرار داد پیش کی گئی تھی یہ قرارداد اس وقت کے قائد ایوان اور صوبے کے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل نے پیش کی تھی جو خود اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ مینگل صاحب کے والد سردار رسول بخش مینگل کو انگریزوں کے دور میں وڈھ سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا اور ان کی جگہ خان صاحب کرم خان مینگل کو قبیلے کا عارضی سردار مقرر کر دیا گیا۔ کئی سال کے بعد مینگل قبیلے کی سرداری کا فیصلہ الیکشن سے ہوا قبیلے کے معتبرین نے رسول بخش مینگل کے بیٹے عطاء اللہ مینگل اور کرم خان مینگل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ الیکشن میں عطاء اللہ مینگل کو 106 اور کرم خان مینگل کو صرف 16 ووٹ حاصل ہوئے۔ عطاء اللہ مینگل بلوچ تاریخ کے پہلے منتخب سردار تھے لیکن انہوں نے وزیراعلیٰ بن کر خود سرداری نظام کے خلاف قرارداد پیش کردی۔ اس وقت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) حکومت میں اور پیپلز پارٹی صوبے کی اپوزیشن میں تھی، ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان تھے کیونکہ ابھی 1973ء کا آئین منظور نہیں ہوا تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کو وفاقی حکومت کا تحفظ حاصل تھا۔ صدر بھٹو نے عطاء اللہ مینگل پر واضح کیا تھا کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ضرور ہیں لیکن سرداری نظام کے خاتمے کیلئے قانون سازی وفاق نے کرنی ہے۔ عطا ءاللہ مینگل نے 21جون 1972ء کو صوبائی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ صدر پاکستان نے مجھے کہا ہے کہ سرداری نظام ختم کرنے کیلئے آپ صرف قرار داد منظور کر سکتے ہیں لہٰذا میں یہ قرارداد پیش کرکے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ اردو کو صوبے کی دفتری زبان بنا دیا لیکن انکی حکومت صرف نو ماہ قائم رہی۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو بلوچستان میں سرداری نظام کی مخالف ایک ترقی پسند حکومت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ فوجی جرنیل بھی نیپ کی حکومت ختم کرنا چاہتے تھے لہٰذا 13 فروری 1973ء کو سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کردی گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کا جوان بیٹا اسد اللہ مینگل کراچی سے غائب کر دیا گیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘میں بتایا کہ اسد اللہ مینگل کو قتل کرکے ٹھٹھہ میں دفن کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ عطاء اللہ مینگل کو بتائیں ان کا بیٹا افغانستان بھاگ گیا ہے۔ عطاء اللہ مینگل نے بیٹے کے دکھ کے باوجود تمام عمر پاکستان کے خلاف کوئی بات نہ کی۔ ان کا واحد احتجاج یہ تھا کہ انہوں نے لاہور کا بائیکاٹ کردیا۔ وہ کبھی لاہور نہیں جاتے تھے لیکن وفاق کی سیاست کرنے کیلئے اختر مینگل کو آگے لائے۔ اختر مینگل 1997ء میں وزیراعلیٰ بنے لیکن صرف 16ماہ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں فارغ کر دیا۔ مشرف دور میں اخترمینگل پر غداری کے مقدمے بنے لیکن انہوں نے وفاق کی سیاست نہیں چھوڑی لیکن 8 فروری 2024ء کو بلوچستان میں جس قسم کا الیکشن ہوا اس کے بعد بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کا پارلیمانی سیاست سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ آج بلوچستان میں جو حکومت قائم ہے اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو وفاق اور صوبے میں تنازعے سے فائدہ اٹھا کر جھنڈے والی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ تنازع ختم ہوگیا تو یہ صاحبان شائد اپنے صوبے میں رہائش بھی نہ رکھیں کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس اسلام آباد میں عالیشان گھر ہیں۔ اختر مینگل کا استعفیٰ اس ماڈل کی ناکامی کا آغاز ہے جو 8فروری 2024ء کو لایا گیا۔ اس ماڈل کو کامیاب بنانے کیلئے عدلیہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں ’’کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘‘ کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے اور اس ماڈل کو پورے پاکستان پر مسلط رکھنے کی کوشش کئی دیگر سیاست دانوں کو بھی اختر مینگل کی طرح پارلیمانی سیاست چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔