سندھ ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے کیس میں جامعہ کراچی کی ان فیئر مینز کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
عدالت نے کراچی یونیورسٹی کو اس کیس سے متعلق مزید اقدامات سے بھی روک دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 3 ہفتوں میں تفصیلی جواب طلب کر لیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان فیئر مینز کمیٹی اور سینڈیکیٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری غیر مؤثر قرار دی ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے سوال کیا کہ کس کی ڈگری کا کیس ہے، یونیورسٹی نے اب تک کتنے فیصلے کیے ہیں اس قسم کے؟
وکیل نے کہا کہ سینڈیکیٹ نے غیر شفاف طریقے سے فیصلہ کیا ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے سوال کیا کہ کب کی ڈگری ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈگری 30 سال پرانی ہے۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ کس کی درخواست پر یہ سب ہوا ہے، کس کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے، یہ کہے رہے ہیں اسلامیہ لاء کالج نے خط لکھا ہے۔
جسٹس امجد علی سہتو نے سوال کیا کہ درخواست گزاروں کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست وکلاء کی جانب سے دائر کی گئی، کراچی یونیورسٹی کو اختیار ہی نہیں ہے، صرف جوڈیشل کمیشن ہی کارروائی کر سکتا ہے، سینڈیکیٹ کے ایک ممبر کو پولیس 8 گھنٹے کے لیے اٹھا کر لے گئی تھی۔
جسٹس امجد علی سہتو نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سیاسی باتیں نہ کریں۔
جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ کس کی ڈگری آپ کینسل کر رہے ہیں اس کو بلانا چاہیے، اس بندے کو نوٹس دینا چاہیے، جوڈیشل کمیشن میں کوئی بھی درخواست دی جاسکتی ہے وہ چیک کرا لیتے۔