آباد شاہ پوری
وہ 6 ستمبر 1965 کی صبح تھی۔ مطلع صاف تھا۔ بازاروں میں چہل پہل تھی۔ لوگ کام کاج پر آجارہے تھے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کا پرسکون دریا اپنی عام رفتار سے رواں دواں ہے، لیکن لوگ ادھر اُدھر آپس میں عجیب سے انداز میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جیسے کوئی بڑی اہم بات ہو اور وہ ایک دوسرے سے اس کی تصدیق چاہتے ہوں۔ گلیوں سے نکل کر کھلے میدان میں پہنچا، تو میں نے ایک نگاہ چاروں طرف دوڑائی ، آفتاب پوری آب و تاب سے نکلا ہوا تھا۔
عمارتیں چمک رہی تھیں، کھیت لہلہا رہے تھے، کچھ کیاریوں میں جھومتے ہوئے پودوں کی جگہ سنگ اور خشت سے ایک دنیا زیر تعمیر تھی،کھلی جگہ میں کچھ لڑکے کھیلنے کودنے میں مشغول تھے۔ زندگی کے معمول میں ذرا بھی تو فرق نہ آیا تھا۔ جب کھیتوں سے گزر کر آبادی میں پہنچا تو پتہ چلا کہ لوگوں کیسرگوشیاں بے معنی نہ تھیں۔
رات ہمارے پڑوس کا سامراجی ڈاکو ہماری سرحدوں میں چپکے سے گھس آیا تھا ۔جارحیت کا ارتکاب کرنے والے سامراجی ڈاکو ہی تو ہوتے ہیں ۔ ہتھیاروں اور اپنے گینگ کی قوت کے نشے میں ان کے اندر اپنے ڈاکو ہونے کا زعم پیدا ہوجاتا ہے..... ایک ایسا ہی ڈاکو بڑی طاقتوں کے عطا کردہ اسلحے کے نشے میں ہمارے گھر پاکستان میں گھس آیا تھا۔
مجھے جنگ سے تین دن پہلے کی ایک گفتگو یاد آگئی۔ ایک دوست میرے ہاں تشریف لائے تھے۔ کشمیر کی صورت حال اور بھارتی فوجوں کی پے درپے شکستوں کا ذکر چھڑ گیا۔ انہوں نے پوچھا ’’کیا خیال ہے تمہارا، بھارت اس صورت حال سے جھلا کر کوئی نیا محاذ تو نہیں کھول دے گا؟‘‘
’’نیا محاذ؟‘‘ میں نے استفہامیہ انداز میں دریافت کیا ۔
’’ہاں نیا محاذ، ممکن ہے وہ لاہور پر ہلہ پول دے۔‘‘
’’یہ اس کی بہت بڑی حماقت ہوگی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ میرا خیال تھا بھارت بہرحال ایک متنازعہ علاقے (کشمیر) کے لیے مسلمہ بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کرنے کی ہمت نہ کرے گا اور نہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کا ایسا بیج بوئے گا کہ آنے والی نسلیں صدیوں تک اس کی فصل کو کاٹتی رہیں لیکن چور بزدل ہی نہیں احمق بھی ہوتا ہے، چناں چہ اس چور نے برصغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کا ارتکاب کر ڈالا ۔
دفتر میں بیٹھے ہوئے بھی میں یہی باتیں سوچتا رہا۔ اچانک پے درپے دو دہشت ناک دھماکوں سے درو دیوار لرز اٹھے ’’شاید دشمن نے کہیں بم پھینکے ہیں۔‘‘ ایک ساتھی نے کہا اور باہر سڑک پر جمع ہوجانے والے لوگ آواز کی طرف دوڑے۔ لیکن یہ بم پھٹنے کی آواز نہ تھی، بلکہ جیٹ طیاروں کی پرواز سے پیدا ہونے والے دھماکے تھے۔
پاکستان کے شیر دل ہوا باز دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے پوری رفتار سے سرحد کی طرف جارہے تھے۔خاموش اور سہمی سہمی فضا میں جوش تیرنے لگا تھا۔ دوپہر کے وقت صدر ایوب خان نے جب قوم سے خطاب کیا تو ان کے کہے ہوئے ایک ایک جملے اور ایک ایک لفظ کو اپنے جذبات اور دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ پایا۔ سیاسی اختلاف کی بساط لپٹ گئی تھی اور پوری قوم، سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوچکی تھی۔
جنگ کوئی خوش آئند چیز نہیں، نہ یہ بچوں کا کھیل ہے۔ جنگ کی باتیں کرنا بڑا آسان ہےمگر اس کے بھڑکتے شعلوں کا سامنا کرنا اور ان سے لڑنا کارے دارد۔ ان شعلوں نے اب پاکستان کی ملت اسلامیہ کو آگھیرا تھا۔ اس کے جیالے بیٹے سرحدوں پر ان کے ساتھ نبرو آزما تھے اور سرحدوں کے اندر ایک ایک فرد ان کی حدت محسوس کر رہا تھا۔ اضطراب کی جو لہر لمحہ بھر کے لیے خبر سن کر چہروں پر نمودار ہوئی تھی اس کی جگہ اب عزم و ہمت کی تابندگی جھلک رہی تھی۔ ان میں ولولہ اور بلند آہنگی تھی اور آنکھوں میں جرأت و عزیمت کے شرارے.....
بی بی سی نے لاہور پر بھارت کے قبضے کی خبر دی تھی۔ دہلی اور امر تسر میں مسرت کے شادیانے بج رہے تھے، لیکن لاہور خوف و خطر سے بے نیاز لازوال جراتوں سے سرشار سر بلند کھڑا تھا۔ چند میل دور اللہ کے سپاہی دشمن کو پسپا کرنے کے لیے معرکہ آرا تھے جو اعلان جنگ کیے بغیر رات کے اندھیرے میں سرحد پر متعین رینجرز کو پامال کرتے ہوئے آگے بڑھ آیا تھا۔ پاکستانی افواج کے افسر اور جوانوں نے لاہور کے ہر محاذ پر بھارتی فوجیوں کے چھکے چھڑا دیے۔ بری افواج کے ساتھ پاک فضائیہ کے شاہین بھی حرکت میں آگئے تھے۔
انہوں نے دو تین روز کے اندر اندر بھارت کے فضائی اڈوں پر حملہ کرکے اور پاکستان پر فضائی حملہ کرنے والے طیاروں کو مار گرا کر بھارت کی فضائی طاقت کے کس بل نکال دیے تھے۔ کھیم کرن کے محاذ پر تو پاکستانی افواج دشمن کو پیچھے دھکیلتی چلی جارہی تھی، لیکن اس کے لیے انہیں بھاری قربانیاں دینا پڑیں۔
قومیں لہو دے کر ہی زندہ رہا کرتی ہیں اور پاکستانی قوم ایک نئی زندگی سے سرشار ہو رہی تھی۔ لاہور کے محاذ پر منہ کی کھانے کے بعد دشمن نے سیالکوٹ سے راجستھان تک محاذ کھول دیے تھے اور ہر جگہ اسلام کے پروانے ارض پاکستان پر اپنی جانیں نچھاور کرکے اسے ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔
پاکستان کے ہر شہر اور قریے سے حالات کا سامنا اس انداز میں کیا جا رہا تھا جیسے وہ برسوں سے اس کے عادی ہوں۔ 7 ستمبر کا دن لاہور کے لیے بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ دشمن پاکستانی جیالوں کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو توڑ کر آگے بڑھنے اور لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہاتھا۔ توپوں کے گرجنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ ہوائی حملے کے خطرے کا سائرن بار بار بجتا اور فضا میں طیاروں کی گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی۔
پاکستان کے شاہین دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے دکھائی دیتے اور یہ سارا منظر لاہوریوں کے لیے گویا بڑا خوش کن تھا۔ وہ ساری ہنگامہ خیزی کے باوجود اپنے روز مرہ کے کام کاج میں مشغول تھے۔ لوگ خطرے سے بے نیاز چلتے پھرتے رہے،سائیکلیں، اسکوٹر اور موٹریں رواں دواں رہیں۔ شہری رضا کار سیٹی بجا بجا کر انہیں روکتے اور سڑک کے کنارے یا کسی پناہ گاہ میں چلے جانے کی ہدایت کرتے مگر جونہی وہ پیٹھ پھیرتے، رکا ہوا سیل پھر رواں ہوجاتا۔
جان و مال کے ضیاع کے باوجود لوگ خوف و ہراس سے آزاد زندگی بسر کر رہے تھے۔ قوم کے سرفروش بیٹے سرحدوں پر تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے چھ گنی قوت سے پنجہ آزما تھے اور عام افراد گھریلو محاذ مستحکم بنانے میں جُتے ہوئے تھے کہ آج کل آدھی جنگ گھر کے محاذ پر جیتی یا ہاری جاتی ہے۔ حفاظتی تدابیر کی جا رہی تھیں۔ نوجوان شہری دفاع اور فرسٹ ایڈ کی تربیت حاصل کر رہے تھے، دفاعی فنڈ جمع ہو رہا تھا۔
سرگودھا، پنجاب کے ان اضلاع میں سے ہے جن کے جوانوں کی شجاعت اور دلیری کی دھوم تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھے، جب مائیں، بہنیں اور بیویاں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خود جانے والا بھی افسردہ چہرے اور دم توڑتی آرزوؤں کے ساتھ رخصت ہوتا تھا اور یہ منظر بھی دیکھا کہ ریزرو فوجیوں کو حاضر ہونے کا حکم ملا تو وہ ہنسی خوشی، ہاروں سے لدھے پھندے ہشاش بشاش چہروں کے ساتھ روانہ ہوئے۔
بستی والوں نے جلوس کی صورت میں انہیں وداع کیا اور خواتین نے اس احساس فخر کے ساتھ کہ ان کے عزیز، اللہ کی راہ میں کافروں سے لڑنے جارہے ہیں۔ مارے جائیں گے، تو شہادت کی موت سے سرفراز ہوں گے اور زندہ واپس آئیں گے تو غازی بن کر۔
ان دنوں جب ملت اسلامیہ پاکستان اپنی تاریخ کا ایک نیا باب لکھ رہی تھی، اس کی پوشیدہ صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آگئیں۔ عوام کے اندر قربانی، ایثار اور صبر و استقامت کا بے پایاں جذبہ ہی پیدا نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور دینداری کی لہر بھی دوڑ گئی۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئیں، مردوں اور عورتوں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر رکوع و سجود میں اپنے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگیں۔ مجھے وہ شام کبھی نہ بھولے گی جس روز بھارت نے سیالکوٹ کے محاذ پر اپنی بکتر بند فوج اور ٹیکنوں کی ساری قوت لاجھونکی تھی۔
نماز مغرب کے بعد پہلی صف میں ایک بوڑھا اٹھا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا ’‘دشمن نے سیالکوٹ پر ٹیکنوں کا ایک پورا ڈویژن لا ڈالا ہے۔ بھائیو! میں نے افریقہ میں ٹیکنوں کی لڑائی میں شرکت کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت وطن عزیز کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اس سے فتح و نصرت طلب کرو۔ اسی کی نصرت و تائید ہمیں اس خطرے سے نکال سکتی ہے، وہی ہمارے جوانوں کو وہ قوت اور استقامت و جرأت بخش سکتا ہےجو ان دیو پیکر فولادی ہاتھیوں کا منہ پھیر دے۔‘‘ سب نمازیوں کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے۔ امام صاحب پراثر اور رقت بھری آواز میں دعا مانگ رہے تھے اور مسجد کی فضا آمین آمین کی صدائوں سے گونج رہی تھی۔ عاجز و درماندہ بندے،اللہ کے حضور اپنی فوجوں کی نصرت و فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ آنکھیں ساون بھادوں کی جھڑی بنی ہوئی تھیں۔
جب ہم دعا مانگ کر اٹھے تو رات کی تاریکی سایہ فگن ہوچکی تھی۔ میں نے اپنے دل میں خوشگواری اور طمانیت کی عجیب سی کیفیت محسوس کی۔ اگلے ہی روز شام کو خبر آگئی کہ ہمارے سرفروش جوانوں نے نہ صرف دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی، بلکہ ان کے پرخچے بھی اڑا دیے اور دوسری جنگ عالمگیر کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی جیت لی ہے ۔ ایک طرف بے مثال قربانیاں دی جائیں اور دوسری طرف اپنے اللہ کے آگے جبین نیاز خم کی جائے اور ہاتھ پھیلائیں جائیں تو نصرت خداوندی آکر رہتی ہے۔ بھارت کے ساتھ اس جنگ میں قدم قدم پر اللہ کی نصرت ہمارے ہم رکاب رہی۔ ہماری بری، بحری اور فضائی افواج نے جو کارنامے انجام دیے، آج اس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔
اپنے ایک دوست سےجنگ بندی کے بعد ملنے گیا۔ خیریت پوچھی۔ بُھجے سے لہجے میں بولے ’’ماموں زاد بھائی شہید ہوگیا ہے، لاہور کے محاذ پر، وہ میجر تھا۔‘‘ پھر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا ’’وہ بڑا ہی مضبوط جوان تھا، میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) تھا۔ محاذ پر روانہ ہونے سے پہلے اس نے اپنی ایک رشتہ دار خاتون سے کہا:
’’میں اگر شہید ہوجائوں تو پہلے کراچی (جہاں ان کے بہنوئی ،ایڈمرل شریف رہتے تھے) اطلاع کرنا، وہاں سے وہ لوگ گھر خبر دے دیں گے۔‘‘ وہ بولیں ’’ایسے کیوں سوچتے ہو۔‘‘ مسکراتے ہوئے کہا ’’آخر جنگ پر جارہا ہوں.....‘‘ محاذ پر پہنچ کر اپنے ساتھیوں اور اردلی سے بھی کچھ ایسی باتیں کیں جیسے فرشتۂ موت اس کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہا ہو، اس نے جنت کی خوشبو سونگھ لی ہو۔ اور جب ماموں کو اپنے جگر گوشے کی شہادت کی خبر ملی تو ایک آنسو بھی ان کی آنکھ سے نہ ٹپکا۔‘‘
اس سمے میں سوچنے لگا جس قوم کے جوان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا دیتے ہوں، جنہیں محاذ جنگ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنگ کی خُوشبو آنے لگتی ہو اور جو اللہ کی راہ میں مرنے سے اتنی محبت رکھتے ہوں ، اس قوم کو کون سرنگوں کرسکتا ہے۔