• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد سلیم احمد

ستمبر 65ء کا وہ اہم دن کوئی پاکستانی بھول سکتاہے جب از لی دشمن ملک نے اس سرزمینِ پاک پر اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ بھر پور حملہ کیا؟وہ لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں میں داخل ہو کروہ پورے ملک پر قابض ہونے کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان اس اچانک حملے کے لیے ذہنی طور پر تیارنہ تھا۔

اس کے باوجود دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کے قوم سےخطاب ،خصو صا،اس کے ایک جملے: ’’ دس کروڑ پاکستانی عوام کے امتخان کا وقت آن پہنچا ہے مگر ہمارے دلوں میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ کی صدائیں گونج رہی ہیں‘‘،نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ ہر شہر، ہر بستی ، ہر ضلع اورہر گاؤں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا۔ جوانوں نے اپنی دھرتی بچانےکےلیے سینوں پر بم باندھ کردشمن کے ٹینکوں کےنیچے لیٹ کر اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ آناً فاناًد شمن کے ٹینک ریزہ ریزہ ہوگئے۔

دشمنو ! تم نے اس قوم کو للکارا ہے

(تصور خانم ، شوکت علی )

آج اس عظیم واقعے کو انسٹھ سال پورے ہو گئے، جب پاکستان کی تاریخ نےنئی کروٹ لی تھی۔ 17دن کی اس جنگ نے دشمن کے دانت کھٹّےکردیے تھے اوروہ اقوام عالم (اقوام متحدہ) سے’’ جنگ بندی ‘‘کی درخواست کر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں جو تصور قائم تھا ، معاملہ اس کے برعکس نکلاتھا۔

اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی

اکھ ہوئی حیران حرانیاں دی

مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے

جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی

( تاج بنت سیما)

ہماری فوج کے جوان مسلسل دشمن پر حاوی ہو رہے تھے۔ ہر محاز پر وہ کام یابی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس وقت قوم بھی ایک ہوگئی تھی۔ اب کوئی سندھی رہا تھا، پنجابی، پختون اور نہ کوئی بلوچی،سب تھے تو صرف پاکستانی۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں

سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں

(نیرہ نور)

قوم میں حب الوطنی کا جذبہ جوش مار رہا تھا۔ ہر کوئی ، خواہ وہ بوڑھا ہو، بچہ ہو،جوان ہویاخاتون خانہ، اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے بے چین نظر آتا تھا۔

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں

زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں

(مسعود رانا)

قوم اپنی فوج کو یہ بتا دینا چاہتی تھی کہ وہ اس جنگ میں اکیلی نہیں ہے بلکہ پوری قوم اس کے ساتھ ہے۔

اپنی جان نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد ِمجاہد تجھے کیا پیش کروں

(مہدی حسن)

دشمن نے پاک دھرتی پر یہ حملہ رات کی تاریکی میں یہ سوچ کر کیا تھاکہ مثلِ خوابِ خرگوش ہر کوئی نیند کے مزے لےرہا ہوگا اور اس طرح اسے قبضہ کرنے میں آسانی ہوگی، لیکن یہ دشمن کی بھول تھی۔

ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا ہے سارا وطن

ساتھیو، مجاہدو

(مسعود رانا۔ شوکت علی)

ملک کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے قومی اور مِلّی نغمے اور فوجی ترانے تیار ہو رہے تھے۔ اس وقت ٹی وی کی ابتدا تھی، اس لیے اصل ذرایع ابلاغ ریڈیو اور اخبارات ہی تھے ۔ بیٹری سے چلنے والے پاکٹ سائز ریڈیو کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔

اپنی قوت اپنی جان ، لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ

ہر پل، ہر ساعت، ہر آن ، جاگ رہا ہے پاکستان

(تاج ملتانی ، نگہت سیما)

ریڈیو پران نغموں اورگیتوں کی تیاری کے ساتھ تازہ بہ تازہ جنگی خبروں پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے علاوہ محلّوں ، گلیوں، بازاروں میں، جہاں خبروں کا وقت ہوتا لوگوں کی کثیر تعداد ریڈیو کے گرد جمع ہو جاتی۔ پھر جب یہ آوازگونجتی: ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘ اب آپ شکیل احمد سےخبریں سنیے‘‘، توسننے والوں میںجوش و ولولے ،خوشی اور تجسس سے لبریز ایک لہر دوڑ جاتی۔

جنگِ ستمبر کے دوران جنگی ترانوں اورگیتوں نے قوم میں ایک نیا ولولہ پیدا کردیا تھا

انہوں نے کیا آواز پائی تھی، کیا دبدبہ تھا اس آواز میں۔ دشمن کے جوان بھی یہ آواز سن کر بوکھلا جاتے تھے۔ ان کے ساتھ انور بہزاد کی آواز اور انداز نے بھی خوب شہرت پائی۔ شکیل احمد کی گرج دار آواز اور انداز کو دشمن نےبھی ان الفاظ میں تسلیم کیا کہ ہماری شکست میں شکیل احمد کی آواز کا بہت بڑا دخل تھا۔

دشمن کی مکّارانہ چالوں سے بچنے کے لیے روز رات کو بلیک آؤٹ کر دیا جا تا ۔ آج کی لوڈ شیڈ نگ کی طرح نہیں ۔ اس بلیک آؤٹ میں پورے شہر کے عوام ایک سائرن یا اعلان پر اپنے گھروں کی روشنی خود بند کر دیتے تھے۔ مجال تھی کہ کسی گھر کی جِھری یا سوراخ سے روشنی کی کوئی کِرن نظر آ جائے۔ یہ قوم کا جذبہ حب الوطنی ہی تھا کہ گھروںمیںپنکھوں اوردیگر ضروری اشیاء کا استعمال جاری رہتا،لیکن بلب بجھادیے جاتے۔جب خطرہ ٹل جاتا تو قریبی بنائے گئے سول ڈیفنس کے مرکز سے کلیئر کا ہوٹر بجا دیا جاتا ،جس کے بعد شہر دوبارہ روشن ہو جاتا۔

کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب

میری سرحدوں کی جانب

( نہال عبد اللہ )

کہا جاتا ہے کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ حوصلوںسے جیتی جاتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس قت تیار ہونے والے نغموں اور ترانوں کو سُن کر دشمن پرخوف اور ہیبت طاری ہوجاتی تھی اوردوسری جانب ہماری افواج کے جوانوں کے حوصلے میں اضافہ ہو جا تا تھا۔میڈم نورجہاں نے تو اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر بہ ذات خود محازِ جنگ پر جا کرفوجیوں کے حوصلے بڑھائے اور کئی گیتوں کے نذرانے، عقیدت کے پھولوں کے ساتھ پیش کیے۔

اے وطن کے سجیلے جوانو

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

میر یا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاںر کھاں

ا و ماہی چھیل چھبیلا

ہائے نی، کرنیل نی، جرنیل نی

ایسی شدید جنگ کے باوجود قوم نے کسی بھی موقعے پر یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس جنگ کی وجہ سے کسی پریشانی یا مشکل سے دو چارہے۔ دن بھر کارو بارِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہتا تھا۔ لوگ ڈیوٹی بھی پوری طرح انجام دے رہے تھے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائی بھی معمول کے مطابق تھی۔ بازاروں میں خریداری بھی ہو رہی تھی۔ الغرض،یہ کیفیت ہر شہر ، ضلعے، قصبے اورگاؤں، دیہات کی تھی۔

ہر گھڑی تیّار، کامران ہیں ہم

(خالد وحید)

یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو

روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو

(مسعود رانا )

بعض شہروں پردشمن کی رال ٹپک رہی تھی ۔ یہ شہر اس کاہدف بنے ہوئے تھے،خاص کر لاہور ، سیالکوٹ ، قصور، سرگودھا وغیرہ،ان شہروں پر فضائی حملےبھی کیے گئے ۔ کراچی میں بحری حملے ہوئے، لیکن ہر شہر کے عوام نے ایسے موقعوں پر سول وار کی طرح دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان شہروں کی قربانیوں اور دلیری کو دیکھتے ہوئے شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے گل ہائے تحسین پیش کیےجنہیں موسیقاروں و گلوکاروں نےخوب صورت انداز میں پیش کیا۔

لاہور۔خِطّہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام

شہریوں کو، غازیوں کو،شہسواروں کو سلام

(مہدی حسن)

ایک ارضِ لاہور ، اے اہلِ لاہور

داتا کی نگری، اے شہر لاہور

(مہدی حسن)

سیالکوٹ۔سیالکوٹ کے میدانِ کار زار کو دیکھ

(مہدی حسن)

قصور۔میرا سوہنا شہر قصورنی

(نور جہاں)

اسی طرح فوج کے ہر شعبے نے اپنی جواں مردی کا خوب خوب مظاہرہ کیا۔ فضائی معرکوں میں ہم غازی ایم ایم عالم کو نہیں بھول سکتے۔ راجا عزیز بھٹی شہید کو برّی معرکے میں کبھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔

برّی، بحری، فضائی فوج کے مجاہدین کی کارکردگی سے متاثر ہوکر ہمارے شعراء نے بھی اپنے کلام کے ذریعے نذرانے کچھ اس طرح پیش کیے:

فضائیہ: اپنی فضائیہ کے یہ انداز دیکھیے

(تاج ملتانی)

فضائیہ: شاہین صفت یہ تیرے ہوا باز

(تاج ملتانی)

بحریہ: فرماں روائے بحیرئہ عرب، پاک بحریہ

(احمد رشدی)

سمندر کے پانیو بہوتو تیز تر بہو

(منیر حسین)

برّی فوج۔ہم پاکستان کی برّی فوج کے شیر دلیر سپاہی

(محمد علی شہکی)

قوم کا یہ حال تھا کہ وہ ذہنی طور پر خود کو ’’جہاد‘‘ کا ایک سپاہی تصور کررہی تھی۔ کئی شہروں میں جگہ جگہ ’’ریلیف کیمپ‘‘ قائم کیے گئے تھے، جن کے ذریعےفوجیوں کو خوراک وادویات کی ترسیل کا کام کیا جاتا تھا ، وہ بھی محض اس لیے کہ سارا بوجھ حکومت کے خزانے پر نہ پڑے۔ قوم کو اپنی افواج اور شہداء کی قربانیوں پہ نہ صرف فخر تھا، بلکہ ساتھ ہی یہ امید بھی تھی… کہ

رنگ لائےگا شہیدوں کا لہو

یہ لہو سرخی ہے، آزادی کے پروانے کی، یہ شفق رنگ لہو

(میڈم نور جہاں)

جو بات دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔ 65ء کی جنگ جہاں ہماری افواج کی لازوال قربانیوں کی ایک انمٹ مثال ہے وہیں جنگی و قومی گیتوں کی روح میں اتر جانے والی شاعری د موسیقی کا توڑ آج تک پیش نہ کیا جاسکا۔

عجیب بات ہے کہ انسٹھ برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان گیتوں کی تازگی اور حسن ہنوز بر قرار ہے۔ ہر گیت میں ایسی تاثیر ہے جیسے یہ آج ہی بنایا گیاہو اور افواج پاکستان محاذ پر وشمن سے نبرد آزما ہوں۔