مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 6فروری اور 24جولائی کے فیصلوں سے معترضہ پیرا گراف حذف کردیے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق جو پیراگراف حذف کرائے گئے ہیں وہ کسی بھی فیصلے میں بطور مثال پیش نہیں ہو پائینگے۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مبارک ثانی کیس کے فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں جو انتشار و افتراق اور غم و غصہ کی ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے اور علمائے کرام اس فیصلے کی ستائش کے بعد یوم تشکر بھی منا چکے ہیں۔دراصل قادیانی جنہیں پاکستان کے 1973ء کے آئین نے غیر مسلم اور کافر قرار دیا تھا ان پر آئین کے تحت جو پابندیاں عائد ہیں اگر وہ ان کی حدود سے باہر نہیں نکلتے تو کسی نے ان پر توجہ بھی نہیں دینی تھی لیکن جس طرح ایک فیصلے کے بعد وہ کھل کر ارتدادی سرگرمیاں تیز کررہے تھے اس پر انہیں انکی آئینی حدود و قیود کے بارے یاددہانی کرانا بھی لازمی تھا۔ انگریزوں کا یہ خود کاشتہ اور خود رو فتنہ اس وقت تن آور درخت بننا شروع ہوا تھا جب پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی نے ر بوہ کی زمین مرزائیوں کے نام الاٹ کردی تھی، چناب نگر (سابق ربوہ) میں ایک گورے نے زمین دے کر انکی ریاست کے اندر ریاست قائم کرا دی تھی۔قرآن کریم کی تقریباً سو کے قریب آیات مبارکہ اور نبی اکرمﷺ کی دو سو کے قریب احادیث مبارکہ ختم نبوت کے عقیدہ کے بارے میں الم نشرح ہیں اور کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ عقیدہ ختم نبوت کیلئے اہل ایمان اور جید علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس کی آبیاری و تحفظ کا فریضہ انجام دیا اور الحمدللّٰہ اب تک دے رہے ہیں۔ جھوٹے مدعیان نبوت، نبی ختمی مرتبت ﷺکے عہد سے ہی پیدا ہوگئے تھے اور یہ فتنہ قادیانیت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اہل کتاب یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچائی وہ تھی عقیدہ ختم نبوت پر کاری ضرب، اسلئے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد جن پانچ افراد نے جھوٹادعویٰ نبوت کیا ان سب کے اہل کتاب، یہود ونصاریٰ کیساتھ گہرے مراسم تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اور آپ نے’’ اینقص الدین وانا حی‘‘(کیا دین کو ناقص کیا جائے، اس میں کمی کی جائیگی اس حال میں کہ میں زندہ ہوں،یہ نہیں ہو سکتا)۔ کہہ کر صحابہ کرام سے کہا کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور اس فتنے کی سرکوبی کیلئے کمربستہ ہو جائیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ کرام نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کیلئے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں سید عطاء اللّٰہ شاہ بخاریؒ کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے، انکے خون کا جواب دہ میں ہوں، انہوں نے عشقِ رسالت ﷺ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا،عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ قادیانیوں کو اسلامی تعلیمات اور علامہ اقبال کے مطالبے کے مطابق غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں 1953ء اور 1974ء کو ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ نے تحفظ ختم نبوت کے نام سے جو ہمہ گیر تحریکیں برپا کی تھیں، ختم نبوت کے نام سے پہلی تحریک 1953ء کی تھی، جس کے بانی مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور مسالک کے علماء و مشائخ تھے۔ اِسی طرح 1974ء کی دوسری تحریک ختم نبوت کا معاملہ ہے،1953ء کی تحریک ختم نبوت میں ہزاروں عشاق وجاں نثاران ناموسِ رسالت ﷺنے جامِ شہادت نوش کیا اور لاکھوں فرزندانِ اسلام نے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہن کر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں۔ تحریک ختم نبوت کی اس مقدس جدوجہد کو بدنام کرنے کیلئے اس دور کے حکمرانوں نے قادیانیوں کے ساتھ مل کر پنجاب میں فساد برپا کردیے تھے جسے فسادات پنجاب کا عنوان دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو چند ماہ قبل اپنے اخباری بیان میں کہا تھا کہ میں وہ اقدام کرنے لگا ہوں جس کیلئے علامہ اقبال اور سید عطاء اللّٰہ شاہ بخاری جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ قادیانیت کو اگر غیر مسلم ممالک اور انگریزوں نے پروان چڑھایا لیکن مسلم ممالک نے اس فتنہ کے سدباب کے اقدامات بھی کیے۔ 8اپریل 1974ء کو عالمِ اسلام کے دو سو کے لگ بھگ علماء اور مفتیان عظام نے مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے اہم اجلاس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا اور پاکستان کی وزارت مذہبی امور کے اس دور کے سیکرٹری تجمل حسین ہاشمی نے اس اجلاس میں اعلان کیا کہ حکومت پاکستان رابطہ عالم اسلامی کی قرار داد اور فیصلے کی تائید کرتی ہے، اسی کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت اور کافر قرار دیا تھا۔ آج سے پچاس سال قبل 7 ستمبر کے اس تاریخ ساز فیصلے کے موقع پر اس سال کے بعد از وسط میں قادیانیوں نے مبارک ثانی کیس کی صورت میں کاری وار کرکے ہمارے ایمان کو ایک بار پھر جھنجھوڑا تھا، الحمدللّٰہ کہ یہ سازش ناکام ہو گئی۔