• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جس قرارداد کے تحت افغانستان میں کارروائی کا آغاز کیا، اس قرارداد کی چین اور روس نے بھی حمایت کی تھی۔ ایک طرف امریکی دھمکیاں تھیں اور دوسری طرف یہ قرارداد ، اس لئے پاکستان کے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ہاں البتہ یہ تعاون کچھ بہتر شرائط کے ساتھ ہوسکتا تھا جو جنرل مشرف نے نہیں کیا۔اس وقت طالبان کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر تھا ، اس لئے جب پاکستان نے ہاتھ اٹھالئے اور انٹیلی جنس معلومات امریکہ کے ساتھ شیئر کیں تو طالبان کو شکست دینا امریکہ کیلئے آسان ہوگیا ۔ طالبان کی حکومت امریکی توقعات سے بھی پہلے ختم ہوگئی اور جس روز وہ کابل چھوڑ رہے تھے ، اس روز پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی واشنگٹن ڈی سی میں امریکی حکام کے ساتھ اس صلاح مشورے کیلئے موجود تھے کہ طالبان کی حکومت کیسے ختم کی جائے۔ طالبان چند ماہ میں منظر سے بالکل غائب ہوگئے۔دوسری طرف بون کانفرنس کے نتیجے میں حامد کرزئی کی حکومت قائم ہوگئی۔ افغانستان استحکام کی طرف جانے لگا ۔ پارلیمنٹ بن گئی اور لویہ جرگہ کے انتخابات ہوئے ۔ کرنسی کے مسئلے کو حل کر لیا گیا ۔ امریکہ اور یورپ سے اشرف غنی جیسے افغان واپس لوٹ کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے لگے لیکن امریکی اپنی فتح کے زعم میں خطے سے متعلق اپنے خوابوں کو پورا کرنے لگے ۔ پاکستان کا مطالبہ تھا کہ انڈیا کو افغانستان میں نہ آنے دیا جائے لیکن امریکہ نے اس کو آنے دیا اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں سے بھی باز نہیں رکھا۔ کچھ لوگ کابل میں پختونستان کے ایشو کو تازہ کرنے لگے لیکن سب سے بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل کرلی۔ پاکستان کا مطالبہ رہا کہ اسی طرح کانیوکلیئر معاہدہ اس کے ساتھ بھی کیا جائے لیکن امریکی اس کیلئےتیار نہ تھے ۔چنانچہ پاکستان نے دوبارہ طالبان کی سپورٹ شروع کی اور آج اگر طالبان کابل میں فاتح بنےبیٹھے ہیں اور امریکہ شکست کے زخم چاٹ رہا ہے تو اس میں ایران ، روس اور بالخصوص پاکستان کا بنیادی کردار ہے ۔ امریکی اس پورے عرصے میں پاکستان پر دبائو ڈالتے رہے کہ وہ طالبان کی درپردہ سپورٹ سے باز آجائے لیکن پاکستان نہ مانا بلکہ اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کو بھی پنپنے کا موقع ملا تاہم پاکستان ڈٹا رہا ۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی مسلسل امریکیوں سے کہتے رہے کہ طالبان اور القاعدہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان میں ہیں اور امریکیوں کو وہاں کارروائی کرنی چاہئے لیکن ڈرون کے سوا امریکی پاکستان میں کارروائی کیلئے تیار نہ ہوئے ۔ ایک مرتبہ جب حامد کرزئی نے یہی بات موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن جو اس وقت صدر نہیں تھے، سے کہی تو انہوں نے جواب دیا کہ مسٹر کرزئی پاکستان امریکہ کیلئے افغانستان کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ اہم ہے اور شاید انڈیا کے معاملے پر یہی جواب وہ پاکستان کو دیتے رہے کہ پاکستان ہمارے لئے اہم ہے لیکن انڈیا پچاس گنا زیادہ اہم ہے ۔بہر حال وہ دن آگیاکہ طویل جنگ ، ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے خرچے کے باوجود امریکہ کو انتہائی رسوائی کے عالم میں افغانستان سے نکلنا پڑا ۔امریکہ نکل گیا اور طالبان پہلے سے بہت بہتر اور طاقتور پوزیشن میں دوبارہ افغانستان کے حکمران بنے ۔امریکہ نے قطر معاہدے میں طالبان سے یہ شرط منوا لی کہ وہ دوبارہ القاعدہ کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیں گے لیکن پاکستان نے جب مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کے ایشو کو بھی قطر معاہدے میں شامل کیا جائے تو نہ امریکی مانے اور نہ طالبان ۔بہر حال وقت کی سپر پاور امریکہ آج تاریخی شکست کھانے کے بعد افغانستان میں شکست کے زخم چاٹ رہا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ ، جو بائیڈن پر الزام لگا رہا ہے کہ اس نے غلط طریقے سے انخلا کیا جبکہ ڈیموکریٹس ٹرمپ پر الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے غلط طریقے سے مذاکرات شروع کئے۔ جو افغان، افغانستان چھوڑ چکے ہیں وہ بھی پاکستان کو گالیاں دے رہے ہیں اور امریکہ پر بے وفائی کے الزام لگارہے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی وجہ سے ہوا ۔امریکی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فتح شکست میں پاکستان کی وجہ سے بدلی ۔صرف امریکی سیاستدان نہیں بلکہ وہاں افغانستان کے سٹیوکول جیسے ماہرین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا پاکستان کی ڈبل گیم کی وجہ سے ہوا ۔چنانچہ اب جب بھی افغانستان کا تذکرہ آتاہے امریکیوں کا خون پاکستان سے متعلق گرم ہو جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے میں غلط ہوں لیکن میرا یقین ہے کہ آئی ایم ایف کے ذریعے جو پاکستان کی ناک رگڑائی جارہی ہے ، وہ افغانستان کے انتقام کا ایک حصہ ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگے جاکر امریکہ کن کن طریقوں سے پاکستان سے اپنا انتقام لیتا ہے۔دوسری طرف جب پاکستان افغان طالبان پر اپنے احسانات جتاتا ہے تو وہ نائن الیون کے بعد پالیسی تبدیل کرنا یاد دلاتے ہیں ۔ وہ پاکستانی قید میں مرنے والے ملا عبیداللہ اخوند کو یاد دلاتےہیں۔وہ استاد یاسر کو یاد کرتے ہیں۔ وہ ملا برادر کو جیل میں ڈالنے کا ذکر کرتے ہیں ۔ گویا وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے کوئی احسان نہیں کیابلکہ نائن الیون کے بعد طالبان سے بے وفائی بھی اپنے مفاد میں کی اور اس کے بعد بھی اگر کچھ کیا تو اپنے مفاد میں کیا۔گویا اس وقت پاکستان کی وہ کیفیت ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ان لوگوں کا محاسبہ کرسکے گا جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائیں اور چلائیں۔

تازہ ترین