• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ذوالفقار علی بھٹو کی پینتیسویں برسی ہے 3اور 4اپریل 1979ء کی درمیانی رات انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔ قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار ایسے افراد پیدا ہوا کرتے ہیں۔ قائداعظم ؒ کے بعد بھٹو ہی وہ واحد لیڈر تھے جو مسلم امہ کی پہچان بنے اس کے بعد سے آج تک ہم قیادت کے بحران سے دو چار چلے آرہے ہیں، میاں محمد نواز شریف صاحب میں یہ خوبی ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل کی عدم دستیابی ان کے آڑے آرہی ہے ویسے بھی ہمارے پاس نواز شریف صاحب کے سوا کوئی قدآور سیاست دان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔بات جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ہو رہی تھی ان کی موت کا دن مجھے اس لئے بھی نہیں بھولتا کہ اس شام یعنی 3اپریل 1979ء کو میرے پہلے شعری مجموعے’’ مرحلے‘‘ کی راولپنڈی مہاراجہ میں تعارفی تقریب تھی ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کی صدارت اور سید ضمیر جعفری، خاطر غزنوی صاحب، پروفیسر مقصود جعفری اور احمد ظفر صاحب نے مضمون پڑھے تھے ۔ان دنوں ٹی وی اسٹیشن راولپنڈی چکلالہ میں ہوا کرتا تھا جہاں آج کل شاید چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کا آفس ہے۔ 9بجے کے خبرنامے کے لئے ہم وڈیو لئے محلہ جھنڈا چیچی موڑ پر پہنچے تو وہاں فوج نے ناکا لگایا ہوا تھا، ہمیں روک لیا ایسے میں فوری شرارت سوجھی اور ہم نے کہا کہ حالات کا تو آپ کو پتہ ہی ہے اس وڈیو میں کرنل صاحب اور میجر صاحب کا قوم کے نام پیغام ہے فوجی حوالدار نے کہا کون کرنل ہم بولے کرنل محمد خان اور میجر سید ضمیر جعفری اس نے بیرئیر ہٹا دیا اور پیچھے سے آواز دی کہ اُدھر ہی کہیں سے نکل جانا واپس نہ آنا اگلی صبح ہم اخبارات میں جہاں اپنی تقریب کے مقررین کی تصویریں اور فرمودات دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے وہیں رہ رہ کر ہیڈلائن پر جا کر نظر رک جاتی رہی جس میں لکھا تھا ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا، پھانسی کی رات قریب قریب چار گھنٹے تک بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کے پاس رہیں یہ ان کی آخری ملاقات تھی، 2بج کر4 منٹ پر بھٹو کو پھانسی ہوئی ایک گھنٹے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بے جان بھٹو کو گڑھی خدا بخش لے جایا گیا قریبی عزیز داروں نے بھٹو کا آخری دیدار کیا اور صبح 9بج کر 20 منٹ پر گڑھی خدابخش کی جامع مسجد کے امام محمود احمد بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی پھر اسی جامع مسجد کے قریب دس بج کر تیس منٹ پر تدفین کا عمل مکمل ہوا اس کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب تاریک ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا کیس دراصل بنتا ہی نہیں تھا اگر بغرض محال تھوڑی دیر کیلئے اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو پھر دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہیں ان کے اپنوں نے مروایا ہے کیونکہ بھٹو کا کیس میرٹ پر لڑا ہی نہیں گیا صرف عدالت کو ڈرانے دھمکانے کے سوا کسی وکیل نے کوئی قابل ذکر بات نہیں کی حالانکہ بھٹو صاحب کے پینل میں نامی گرامی وکلاء تھے جن میں جناب یحییٰ بختیار ، غلام علی میمن، دوست محمد اعوان، محمد شریف، عبدالحفیظ لاکھو، نور احمد نوری اور ایم اے رضوی شامل تھے۔ کوئی کہتا رہا اگر بھٹو کو پھانسی ہوئی تو ہمالہ رو پڑے گا کسی دوسرے نے کہا بھٹو کی موت سے مجھے ایشیاء خون میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقدمے کی ساری کارروائی میرے پاس محفوظ ہے، دلائل کم اور بڑھکیں زیادہ ہیں پھر بھٹو کے قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ کھر اور غلام مصطفیٰ جتوئی دونوں ایک ساتھ راولپنڈی ٹین کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ اگر بھٹو کی طرف سے یقین دہانی کرا دیں تو ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف جیالوں نے کوئی خاص ردِعمل نہ دکھایا محض چند دن راولپنڈی کے کمیٹی چوک جسے بعد میں شہید چوک کہا جانے لگا وہاں وحید قریشی، پرویز رشید کھوکھر، عزیز ملک اور عبدالرشید عاجز نے خود سوزی کی اور جل مرے جبکہ راشد ناگی کو زخمی حالت میں بچالیا گیا تھا۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو صرف ان 5جیالوں کا لیڈر تھا؟میرا مقصد یہ نہیں کہ باقیوں نے وہ راہ کیوں نہ اپنائی میرے کہنے کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی کے زعماء کہاں تھے انہوں نے منافقت سے کام کیوں لیا تھا اس دور کے راولپنڈی سے پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید اصغر علی شاہ صاحب سے میں نے کئی بار کہا کہ شاہ صاحب باہر نکلیں بھٹو پھانسی لگ جائیں گے مگر شاہ صاحب کہتے کہ میں تو باہر نکلنے کو تیار ہوں لیکن میرے پیچھے کوئی نہیں ہو گا ایسے میں نکلنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ان دنوں چونکہ سپریم کورٹ راولپنڈی ملٹری اسپتال کے قریب مال روڈ پر ہوا کرتا تھا سپریم کورٹ پیشی کے لئے جب کبھی راولپنڈی ڈسڑکٹ جیل سے ذوالفقار علی بھٹو کو فوج کا حفاظتی دستہ لے کر جایا کرتا تو وہ اکثر مال روڈ کو ہی استعمال میں لایا کرتے تھے اور اپنے قافلے کی رفتار بھی کم رکھتے تھے اس کی وجہ بتاتے ہوئے گزشتہ دنوں میجر جنرل وجاہت لطیف جو اس دستے کا کرنل کمانڈٹ تھے نے بتایا کہ اُن کا خیال تھا کہ جیالے روکیں گے، ٹائر جلائیں گے، احتجاج ہو گا، ہو سکتا ہے بھٹو کے بچنے کا کوئی راستہ نکل آئے مگر دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا شاید اس معاملے میں پنجاب میں پیپلزپارٹی آڑے آتی رہی لیکن 24مارچ 1979ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو ہائیکورٹ لاہور کی طرف سے 18مارچ 1978ء کو دی گئی موت کی سزا کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تو پیپلز پارٹی میں تو نہیں مگر نصرت بھٹو دیوانہ وار بھاگی دوڑیں، راولپنڈی کے ایک پانچ تاروں والے ہوٹل میں سید علی اصغر شاہ صاحب کو بلا کر کہا کہ شاہ صاحب پنجاب کے گورنر جنرل سوار خان سے آپ کے مراسم ہیں ان سے بات تو کریں شاہ صاحب نے بات تو کی لیکن جنرل سوار نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کام خاصا مشکل ہو گیا ہے پھر راولپنڈی کے ایک سابق جنرل برکی جن کے سید علی اصغر شاہ اور جنرل ضیا الحق دونوں سے مراسم تھے علی اصغر شاہ صاحب نے ان سے کہہ کر ضیا الحق سے ملاقات کا وقت لینا چاہا تو ضیاء صاحب کے ملٹری سیکریٹری نے مدعا جان کر تھوڑی دیر بعد فون کر کے جنرل برکی سے کہا کہ صاحب 5اپریل تک مصروف ہیں اس کے بعد کی کوئی تاریخ رکھ لیں اسی عرصے میں 31مارچ کو پیپلز پارٹی نے اور یکم اپریل کو بھٹو صاحب کی ہمشیرہ شہر بانو نے جنرل ضیا الحق سے بھٹو صاحب کی جان بخشی کی اپیل کی اس دوران 54سربراہان مملکت اور بہت سی عالمی تنظیموں اور ملک کے اندر بھی بہت ہی نمایاں شخصیات نے صدر ضیاالحق سے رحم کی اپیل کی مگر یکم اپریل 1979ء کو صدر مملکت نے ان تمام اپیلوں کو مسترد کر کے بھٹو کی قسمت میں لکھا موت کا فیصلہ سنا دیا اور یوں 3اپریل 1979ء کی آدھی سے زیادہ گزر جانے والی رات کو انہیں پھانسی دے دی گئی ۔
میں جب یہ بات کہتا ہوں کہ بھٹو پر سرے سے قتل کا کیس بنتا ہی نہیں تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بھٹو کے مقدمے کے مدعی احمد رضا قصوری جنہوں نے 11نومبر 1974ء کو اپنے والد کے قتل کی FIRلاہور کے تھانہ اچھرہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کرائی تھی وہ اصولی، اخلاقی اور قولی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے باپ کا خون معاف کر چکے تھے وہ اس طرح کہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے تشکیل دیا گیا تحقیقاتی ٹریبونل جو جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں قائم ہوا تھا نے جب 26فروری 1975ء کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی تو PPPکے میڈیا ایڈوائیزر کے بقول ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ ثابت کر دیا تھا ایسے میں احمدرضا قصوری مایوس ہو گئے تھے پھر بیگم نصرت بھٹو احمد رضا قصوری کے آبائی علاقے قصور گئیں اور احمد رضا قصوری کو ماضی کو بھلا دینے، آئندہ مل کر چلنے کی درخواست کی اور معافی کی خواستگار ہوئیں تو احمد رضا قصوری نے بیگم نصرت بھٹو کے سر پر چادر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ جب بہن ننگے سر چل کر بھائی کے گھر آجائے تو پنجاب کی روایت ہے کہ بھائی معاف کر دیا کرتے ہیں لیکن جناب احمد رضا قصوری اپنے اس ’’قولِ فیصل‘‘ پر قائم نہ رہ سکے اور یوں 4 اپریل1979ء کو پاکستان کی سیاسی تاریخ اجڑ گئی۔ اس موقع پر مولانا مفتی محمود صاحب نے ’’فرمایا ‘‘تھا کہ آج بھٹو سے ہمارے تمام اختلافات ختم ہو گئے۔
تازہ ترین