سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ اعظم، حضرت محمد ﷺ کی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالتِ مآب ﷺ کی نبوّت و رسالت کے بے کراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِ دوجہاں، رحمۃ لّلعالمین، سیّدالمرسلین ﷺ کی مِدحت و رِفعت کا شاہد ہے۔ ’’انّا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ورفعنا لک ذِکرک‘‘ کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔
سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی ’’محمد رسول اللہ‘‘ اور آپؐ کا ذکر اتنا بلند ہوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اور تمام بلندیاں اس اسمِ مقدّس اور اس عظیم ہستی کے سامنے پَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب اُن کے ذکرِ مبارک سے معمور ہیں۔ یہ رتبۂ بلند کُل کائنات میں آپؐ کے سوا نہ کسی اور کو نصیب ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اس ابدی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے سیّد صبیح رحمانی کیا خوب کہتے ہیں ؎کوئی مثل مصطفیٰؐ کا کبھی تھا،نہ ہے، نہ ہوگا… کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔
یہ ایک تاریخی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج کرۂ ارض پر آباد کوئی خطّۂ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز سرورِ عالم، حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو، 24 گھنٹوں کے 1440 منٹ میں زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سُنائی دیتی ہے۔
اذان میں چوںکہ خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائناتؐ کا نامِ نامی بھی بلند ہورہا ہے، تو اسمِ محمدؐ کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرۂ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اللہ کے نام کے ساتھ ساتھ اُس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمدؐ کا نامِ نامی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سماعتوں میںرس گھولتا رہے گا۔
لادینیت کے اس دَور میں بھی آپؐ کے دین متین کی تبلیغ اور آپؐ کی سیرت و پیغام کو عام کرنے کی کوششیں پورے خلوص کے ساتھ جاری ہیں۔ آپ ؐ کا اسمِ گرامی لے کر، آپؐ کا ذکرِ خیر کرکے اور آپؐ کے محاسن سُن کر کروڑوں دلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں۔
اپنے تورہے ایک طرف، بیگانوں اور متعصّب مخالفوں کا بھی بارگاہِ رسالتؐ میں خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کیا خُوب لکھتے ہیں۔ ’’آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ، جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اللہ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم وفلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کا نہیں، کسی رشی کا نہیں، یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کا بھی نہیں، بلکہ عبداللہ کے لختِ جگر، آمنہ کے نورِنظر، خاکِ بطحیٰ کے اُسی اُمّی و یتیم کا۔
کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیوں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، مصر میں، ایران میں، عراق میں، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، ترکی میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں اور ان سب مہذّب ممالک کو چھوڑ کر خاص نافِ تمدّن و مرکز تہذیب لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہر سال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے، جس نام کی پُکار خالق کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اُسی عظیم اور مقدّس ہستی کا ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا۔ یہ معنیٰ ہیں، یتیم کے راج کے، یہ تفسیر ہے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا پر، دنیا بھر کے دِلوں پر آج حکومت ہے، تو اُسی یتیمؐ کی۔ راج ہے، تو اُسی امّیؐ کا۔
صحابئ رسولؐ، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’جبرائیلِ امینؑ میرے پاس آئے اورمجھ سے کہا، میرا اور آپؐ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ مَیں نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا، مَیں نے عرض کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا، تو میرے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر کیاجائے گا۔‘‘ چناں چہ آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیبؐ سے خالی ہے۔
اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ساتھ ہر اذان میں ہمہ وقت آپؐ کا نامِ نامی بلند ہورہا ہے۔ بلند و بالا میناروں سے سرورِ کائناتؐ کا اسمِ گرامی خالقِ کائنات کے نامِ نامی کے ساتھ پُکارا جارہا ہے۔ دشت و جبل، صحراودریا، بحر و بر، شہروں اور دیہات، آبادیوں اور ویرانوں، سمندروں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپؐ کے نامِ نامی ’’محمد رسول اللہؐ‘‘ کی پُکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرۂ ارض کا چپّا چپّا، سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ عالم حضرت محمد ﷺ کے نامِ مبارک کی پُکار سے گونج رہا ہے۔
’’ورفعنالک ذکرک‘‘ بلندئ ذکر کی وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر ساڑھے چودہ سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے، چشمِ روزگار اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے۔ سرکارِ دوجہاںؐ کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مقدّسہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بے گانے، مسلم اور غیرمسلم سب ہی آپؐ کے ثنا خواں اور آپؐ کی عظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں، مسلمانوں کو تو اس وقت چھوڑ دیجیے۔ اُن کا تو دین و ایمان ہی رسول اللہ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت و محبّت میں مضمر ہے۔
غیروں اور غیرمسلموں کے کیمپ میں آئیے، وہ بھی آپؐ کی شخصی عظمت اور رفعت کے قائل نظر آتے ہیں۔ معروف ہندو شاعر منوہرلال دل کیا خوب کہتے ہیں ؎ کیا دل سے بیاں ہو تِرے اخلاق کی توصیف.....عالم ہوا مدّاح ترے لطف و کرم کا۔ ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ، مشہور امریکی ماہرِ فلکیات اور عیسائی مؤرّخ ہیں، انہوں نے اور اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی نام وَر اور مشہور شخصیات کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کا حاصل انہوں نے 572صفحات کی ایک انگریزی کتاب’’THE 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History‘‘کی صُورت دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اُس کتاب کا دنیاکی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا، متعدّد ایڈیشنز شائع ہوئے۔عالمی سطح پربہت شہرت پائی،اور اِس میں سرکارِدوجہاں، حضرت محمد مصطفیؐ کوسرفہرست رکھا گیا ہے، کیوں کہ مصنّف کے مطالعے کے مطابق، آپؐ دنیا کےسب سے عظیم اورانسانی تاریخ کےنمایاں ترین انسان ہیں۔ ہارٹ میخائیل لکھتا ہے۔’’میرایہ انتخاب کہ محمدؐ دنیا کی تمام انتہائی بااثر شخصیتوں میں سرفہرست ہیں، کچھ لوگوں کو اچنبھے میں ڈال سکتا ہے، کچھ اس پر معترض ہوسکتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ محمدؐ تاریخ کے واحد شخص ہیں، جنہوں نے ایک عظیم ترین مذہب کی بنیاد رکھی،اُس کی اشاعت کی اور ان کے وصال کے چودہ سو سال بعد بھی اُن کے اثرات غالب اور طاقت وَر ہیں۔‘‘
سرکارِ دوجہاںؐ کی مدحت و رفعت اور تعریف کا یہ وہ مثالی اور تاریخ ساز پہلو ہے، جس کی روشنی میں اجالا بڑھتا ہی جارہا ہے، آپؐ کے ذکرِ مبارک سے دنیا روشن اور آپؐ کے دین و تعلیمات کے نُور سے انسانیت منور ہوتی جارہی ہے۔بے شک، یہ ایک ابدی اورتاریخی حقیقت ہے کہ؎ لایمکن الثناء کما کان حقّہ..... بعدازخدا، بزرگ توئی قصّہ مختصر!