ان گنت مسائل و مصائب کے شکار بلوچستان کے ضمن میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آر بی او ڈی کے نامکمل سیم نالے علاقے میں سیلاب کا سبب بن رہے ہیں۔ سیم نالوں کے ذریعے بارشوں کے پانی کا اخراج نہ ہونے کے سبب پورا علاقہ سیلابی صُورتِ حال سے دوچار ہے اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارے اِس سنگین صُورتِ حال پر آنکھیں بند کیے ممکنہ تباہی کا انتظار کر رہے ہیں۔
پھر یہ کہ اکثر زمین داروں یا کاشت کاروں نے بھی ضلعی انتظامیہ سے لینڈ کمپنسیشن( زمین کی قیمت) وصول کرنے کے باوجود، کھودے گئے سیم نالے ہم وار کر کے اُن پر کھیتی باڑی شروع کر دی ہے، جس کے نتیجے میں اربوں روپے کی لاگت کا یہ اہم منصوبہ عملاً اپنی افادیت کھو چُکا ہے اور اس ضمن میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محکمۂ انہار، ضلعی انتظامیہ یا پی ڈی ایم اے سبھی اِن حقائق سے پوری طرح واقف ہیں، مگر اس کے باوجود، سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے آر بی او ڈی منصوبے کو مکمل طور پر فعال بنانے کی بجائے محض اندھیرے میں لاٹھیاں چلا رہے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ عوام کے چوتھی مرتبہ سیلاب کی زَد میں آنے کے منتظر ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ بارشوں کے پانی کو اخراج کا محفوظ راستہ نہ ملا، تو بچاؤ کی کوئی بھی تدبیر کام نہ آسکے گی، لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) منصوبہ، جو واپڈا کی زیرِ نگرانی شروع کیا گیا تھا، ذرایع کے مطابق اِس ادھورے منصوبے کو بلوچستان ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایس ڈی او سطح کے ایک افسر کے حوالے کردیا گیا ہے، جب کہ اِس میگا پراجیکٹ کی ہینڈنگ اور ٹیکنگ اوور سیکریٹری لیول کے افسر کے ذریعے ممکن تھی۔
بہرحال، واپڈا جیسے تیسے اِس منصوبے سے اپنی جان چھڑوا گیا اور اب یہ ناسور، بلوچستان ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کے سر کا درد اور گرین بیلٹ کی تباہی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اِس قدر نقصانات اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بھی کسی ادارے نے متعلقہ محکمے یا واپڈا حکّام سے جواب طلب نہیں کیا اور نہ ہی اِس اہم منصوبے کی عدم تکمیل پر کسی سے باز پرس کی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اِس سارے غیر قانونی عمل میں سیاست انوالو ہے یا پھر مبیّنہ طور پر مفت میں ہاتھ آئے بکرے کی بریانی مل بانٹ کر کھائی جا رہی ہے۔ بلوچستان کی گرین بیلٹ، جو صوبے کی زرعی معیشت میں کلیدی کردار کی حامل ہے، تین مرتبہ سیلاب کی تباہ کاری کا نشانہ بننے کے بعد اب چوتھی بار ڈوب کر پھر سے اُبھرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ سوال تو بنتا ہے، لیکن جواب کون دے گا…؟؟
مون سون کی حالیہ غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ضلع اوستا محمّد کی تحصیل گنداخہ کے بیش تر علاقوں میں سیلابی صُورتِ حال ہے، جہاں کیر تھر کینال کی متعدّد ذیلی شاخوں میں شگاف پڑنے سے درجنوں گاؤں زیرِ آب آچُکے ہیں اور نتیجتاً وسیع رقبے پر کھڑی چاول کی فصلیں ڈوب گئیں، جب کہ ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
حلقے کے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیرِ صحت، میر فیصل خان جمالی کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، پی ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت کی جانب سے اوستا محمّد کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے، تاہم ضلعے میں تاحال ضرورت کے مطابق ریلیف کا کام شروع نہیں ہو سکا، جس کے سبب ہزاروں متاثرین گھربار چھوڑ کر نہروں کے کنارے کُھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
سیم نالوں میں پانی کا اخراج نہ ہونے سے مین کیرئر ڈرین سمیت اکثر سیم نالوں میں شگاف پڑ گئے، جس کے نتیجے میں گنداخہ، گوٹھ غلام محمّد، چوکی جمالی، گوٹھ محبوب سہریانی، باغ ٹیل اور یونین کاؤنسل باغ ہیڈ کے علاوہ دیگر دیہات بُری طرح سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ اگرچہ مقامی و غیر مُلکی سماجی تنظیموں نے سیلاب زدگان کو ریلیف فراہمی کے لیے متاثرہ علاقوں میں سرگرمیاں شروع کر دی ہیں، تاہم مذکورہ این جی اوز کو مبیّنہ طور پر پی ڈی ایم اے کی جانب سے این او سی کے اجراء میں بے پناہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
این جی اوز کے نمائندوں نے مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ پراوینشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ایمرجینسی صُورتِ حال کے باوجود این او سی کے لیے غیر ضروری شرط عائد کر کے دراصل کرپشن کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ سیلاب متاثرین تک مفت یا لاگت کی بنیاد پر کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے والی ایک این جی او نے بتایا کہ متاثرہ اضلاع میں سعودی حکومت کی جانب سے’’کنگ سلمان ریلیف‘‘ کے نام سے کھجوروں کے تحائف بھجوائے گئے ہیں، جو این او سی نہ ملنے کے سبب گودام میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔
ذرایع کے مطابق سیلاب متاثرین تک امدادی اشیاء پہنچانے کے ضمن میں ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بھی رکاوٹوں کی شکایات ہیں۔ دریں اثنا، متاثرین نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، چیف سیکریٹری اور وزارتِ داخلہ سے اپیل کی ہے کہ اُنہیں سَر چُھپانے کے لیے شیلٹرز اور کھانے پینے کی اشیاء کی فی الفور فراہمی یقینی بنائی جائے۔
نیز، عوام نے متعلقہ اداروں سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ریلیف کا کام کرنے والی این جی اوز کو این او سی کی کڑی اور غیر ضروری شرائط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔