آج کل ڈیجیٹل بینکنگ کا دور ہے لہٰذا میں بھی گھر بیٹھے یوٹیلٹی بل جمع کروا دیتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک ادائیگی کیلئے اپنے بینک کی ایپ کھولی ، پاس ورڈ لگایا لیکن اسکرین پر لکھا آیا کہ ایپ نہیں کھل سکتی۔ پہلا خیال یہی آیا کہ ’کم پے گیا اے‘۔اس کے بعد دو بار ہ کوشش کی اور ’حسن زن ‘سے کام لیتے ہوئے سوچا کہ سسٹم میں کوئی پرابلم ہوگی۔صبح پھر ایپ کھولنے کی کوشش کی لیکن ندارد۔ کسی خیال کے تحت اے ٹی ایم کا رخ کیا ، وہاں کارڈ داخل کیا تو اُس نے بھی قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ مژدہ سنایا کہ آپ کا اکائونٹ بلاک کردیا گیا ہے۔ چونکہ متعلقہ بینک کی برانچ بھی اے ٹی ایم کے بغل میں تھی لہٰذا اُن سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ آپریشنل منیجر صاحب نے کچھ دیر اپنے کمپیوٹر میں چیک کیا اور پھر تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے’آپ کے اکائونٹ میں کوئی مشکوک ادائیگی ہوئی ہے‘۔یہ الفاظ اتنے خوفناک تھے کہ مجھے لگا جیسے میں ’پاپڑ والا ‘ ہوں ۔ یقیناً کوئی بڑی رقم میرے اکائونٹ میں آگئی تھی۔ خوش ہوکر پوچھا کہ کتنی رقم آئی ہے؟ انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا پچیس ہزار ۔
یہ سنتے ہی میں نے سرکھجایااور پوچھا کہ حضور کیا پچیس ہزار کی رقم بھی مشکوک ہوسکتی ہے؟انہوں نے اثبات میں سرہلادیا۔پوچھا کہ اس پچیس ہزار میں مشکوک کیا چیز ہے؟ جواب بڑا دلچسپ تھا۔ کہنے لگے سکھر سے کسی بندے نے شکایت کی تھی کہ اس نے غلطی سے کسی اور اکائونٹ میں پیسے بھیج دیے ہیں لہٰذا بینک نےپہلے سکھر کے بندے کا اکائونٹ بلاک کیا، پھر اُس بندے کا اکائونٹ بلا ک کیا جس میں پیسے بھیجے گئے تھے تاہم وہ بندہ بھی آگے اپنی کوئی ادائیگی کرچکا تھا لہٰذا اگلا اکائونٹ بھی بلاک کردیا گیا، یوں ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور کل ملا کر 11 اکائونٹ بلاک کردیے گئے، میں سب سے آخری تھا۔حیرت سے پوچھا کہ کیا اگر میں نے بھی آگے کوئی ادائیگی کی ہوتی تو اُن کا بھی اکائونٹ بلاک کردیا جاتا؟جواب ملا بالکل کردیا جاتا۔ اب میں ذرا سیدھا ہوا۔تو حضور میں نے تو اکائونٹ بلاک ہونے سے پہلے گاڑی کا چالان بھی اکائونٹ سے آن لائن بھرا تھا، ایک سپر اسٹور سے کارڈ کے ذریعے خریداری بھی کی تھی تو کیا یہ اکائونٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں؟ اس پر منیجر صاحب نے مسکرا کر نفی میں سرہلادیا تاہم ایک خوشخبری سنائی کہ آپ کا اکائونٹ توبلاک ہے، پیسے نہیں نکلوائے جاسکتے لیکن الحمدللہ آپ جتنے چاہے پیسے جمع ضرور کروا سکتے ہیں۔ بینک کی اس رحمدلی سے یقیناً میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا تاہم ایک بات کا مجھے شدید افسوس بھی ہوا۔اگر مجھے پتا ہوتا کہ میرے اکائونٹ سے پیسے کسی بھی اکائونٹ میں بھیجنے پر وہ اکائونٹ بھی بلاک ہوجائے گا تو میں کم ازکم سات آٹھ دشمنوں کو ہی پانچ پانچ سو بھیج دیتا ، کچھ تو کلیجے میں ٹھنڈ پڑتی۔لیکن اب وقت گزر چکا تھا اور خود میرا اکائونٹ بھی بلاک تھا۔ منیجر صاحب سے اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ پوچھا تو فرمایا کہ پہلے آپ ایک درخواست لکھیں کہ آپ کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں، پھر ہیلپ لائن پر کال کریں اور انہیں اپنا مسئلہ بتائیں۔
درخواست میں نے اسی وقت لکھ دی اور گھر آکر بینک کی ہیلپ لائن کا نمبر ملایا۔ انہوں نے شناختی کارڈ نمبر، نام ، ایڈریس اور والدہ کا نام پوچھ کر تصدیق کی اور پھر پوچھا کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ جو پچیس ہزار آپ کو آئے وہ مشکوک نہیں تھے۔ میں نے بے بسی سے کہا مجھے تو حسب وعدہ ایک صاحب نے ادائیگی کرنی تھی سو کردی اب مجھے نہیں معلوم کہ ان کے پاس حلال پیسے تھے یا حرام لیکن میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ جو بھی مجھے آن لائن کوئی ادائیگی کرے گا میں اس سے پہلے نہ صرف اس کا اور اس کے خاندان کا سارا کچا چٹھا معلوم کروں گا بلکہ مسجد میں حلف بھی اٹھوائوں گا کہ جو ادائیگی مجھے کی جارہی ہے وہ مشکوک نہیں۔دوسری طرف سے کچھ دیر خاموشی رہی، پھر پوچھا’آپ کے اکائونٹ میں آخری ٹرانزیکشن کتنی ہوئی تھی؟‘میں نے ذہن پر زور دیا لیکن کچھ یاد نہیں آیا۔پھر اسی طرح کے باریک سوالات آنا شروع ہوگئے۔
کچھ دیر بعد مجھے لگا کہ ہیلپ لائن والے صاحب یہ بھی پوچھیں گے کہ جب آپ ایپ استعمال کر رہے تھے تو کپڑے کون سے رنگ کے پہنے ہوئے تھے، اُس وقت درجہ حرارت کتنا تھا، بجلی کے میٹر کے کتنے یونٹ گر چکے تھے اور موبائل کی بیٹری کتنے پرسنٹ باقی تھی ؟۔تین ہفتے اسی کشمکش میں گزر گئے۔درخواستیں دیں، اُن پچھلے کم بختوں سے رابطہ کیا جن کے اکائونٹ بلاک ہوگئے تھے۔وہ بھی اپنی اپنی جگہ سر پیٹ رہے تھے۔آخر میرے برانچ کے اسٹاف کو مجھ پر رحم آگیا اور انہوں نے مجھے برانچ میں بلا کر پہلے اچھی سی چائے پلائی، پھر مجھے ہیلپ لائن پر کال کرنے کیلئے کہا اور ہیلپ لائن والوں سے خود بھی بات کی کہ بندہ لگتا ایسا ضرور ہے لیکن ہے نہیں۔ہیلپ لائن والوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میرے ہمسائیوں سے بھی آکر میرا کریکٹر سرٹیفکیٹ طلب کرتے۔بالآخر کوششیں رنگ لائیں اور اکائونٹ بحال ہوگیا۔اس سارے عمل میں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ بینک کا ہیڈ آفس کتنی چوکنی نگاہوںسے ایک ایک ٹرانزیکشن پر نظر رکھتاہے تاکہ اُن کے اکائونٹ ہولڈر سے کوئی فراڈ نہ ہوجائے۔
لیکن جنہوں نے فراڈ کرنا ہوتاہے وہ دو منٹ لگاتے ہیں اور نکل جاتے ہیں نہ ان کا اکائونٹ بلاک ہوتاہے نہ اُنہیں ہیلپ لائن پر اپنی پیدائش سے آج تک کی مصروفیات یاد کر کے بتانا پڑتی ہیں۔جو برسوں سے بینک کے کھاتہ دار ہوتے ہیں وہ منتیں کرکرہار جاتے ہیں لیکن بینک اُنہیں ہرحال میں مشکوک سمجھ کر ہی ڈیل کرتاہے، اتنا مشکوک کہ ہیلپ لائن پر جتنی مرتبہ بھی کال کی انہوں نے مجھے ’میڈم‘ کہہ کر ہی پکارا۔