پاکستان کو تباہ کرنے کے اسرائیلی اور بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے والے عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ’’میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ بھی تباہ ہوں گے فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی اور پاکستان کے تین حصے ہوں گے‘‘۔سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ عمران خان پاکستان دشمن ایجنڈے پر پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں اور ان کی سیاست اور مذہبی عقائد پر آنکھیں بند کر کے لبیک کہنے والی گمراہ نسل جانے یاانجانے میں ان کا ہر بیانیہ تسلیم کرنے کے لئے تیار رہتے ہیںاور یہ بات درست ہے اجتماع سے خطاب یا انٹرویو کے دوران وہ مزاح یا سنجیدگی کے رنگ میں اس خوبصورتی کے ساتھ کوئی ملک دشمن یا اسلام مخالف بات کر جاتے ہیں جو اس پاکستان دشمن ایجنڈے کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے جسے عوام و خواص تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتا ہے لیکن اگر ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس پر اعتراض کیا جائے تو انتہائی مہارت کے ساتھ اسے ماننے سے مکر جاتے ہیں اور یہی غیر اخلاقی اور غیر مذہبی عمل ان کی’’سیاست‘‘ کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔سیاست کی آڑھ میں ریاست، ریاستی اداروں اور مذہبی عقائد کی حرمت و توقیر کو نشانہ بنانا، عقیدۂ ختم نبوت کی نفی کرنا، مذہبی اقدار کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا اور اپنے مذہبی نظریات کا پرچار کرنے کے عمل سے عمران خان کے’’نظریات اور مقاصد‘‘ کا بنیادی حصہ ظاہر ہوتا ہے۔ناقدین عمران خان کے’’حقیقی آزادی‘‘ کے بیانیہ اور نعرہ کو’’حقیقی معنی‘‘ پہناتے ہوئے اسے پاکستان اور اسلام دشمن ایجنڈے کوآگے بڑھانے کاذریعہ قرار دیتے ہیں جسے وہ نئی نسل میں گمراہی پھیلانے اور پاکستان اور اسلام دشمن ایجنڈے کی تشہیر کا آسان راستہ سمجھتے ہیں۔کئی بار اس بات کا فخریہ اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اللّٰہ کو نہیں مانتے تھے اور نہ انہیں مذہب کے بارے میں کوئی آگاہی تھی، نہ کوئی دلچسپی۔غیر فطری اور غیراخلاقی وطیرہ ان کی ’’یکجہتی اور قرب‘‘ کی بنیادی شرائط ہیں جن کی نشاندہی ریحام کر چکی ہیں اور تحریک انصاف کے رہنما ایک ٹی وی انٹرویو میں واشگاف الفاظ میں ان اعمال کی تصدیق کرچکے ہیں اور وہ عمران خان سمیت اپنے دوستوں کے گروپ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کر چکے ہیں لیکن دوسری جانب ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ رب العالمین نے ایسی قوموں کو نیست و نابود کر دیا تھا جنہوں نے اس کے احکامات کو نظرانداز کیا، ان کا تمسخر اڑایا اور بے راہروی اور گمراہی کو عام کیا۔عمران خان کی U-Turn کی ناکام پالیسی نے ایک طرف تو عمران خان کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا، دوسری جانب ان کے ریاست دشمن اور اسلام مخالف عزائم اور مقاصد رفتہ رفتہ سامنے آنے لگے ہیں جن کی تردید ممکن نہیں کیونکہ ان کے شواہد اور ثبوت جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔القاعدہ کے سربراہ کو شہید کا درجہ دینے والے عمران خان نے پاکستان کی سلامتی کے لئے اپنی جانوں کانذرانے پیش کرنے والے شہیدوں کو کیسے کیسے بے توقیر کیا، ملک دشمن ممالک کے ایجنڈے کے تحت پاکستانی فوج اور ان سے محبت کرنے والے عوام کی اعصاب کو توڑنے کے لئے شہیدوں کی یادگاروں کو تباہ کیا ان کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کی اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹ کر پاکستانی افواج سے نفرت کا اظہار کیا۔ 9مئی کو شہیدوں کی یادگاروں کے ساتھ اس قدر توہین آمیز سلوک تو پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کو پسند نہیں آیا اس ضمن میں بھارتی ٹی وی کے دفاعی تجزیہ کار میجر (ر) گورو آریا نے فوجی ہونے کے ناطے 9مئی کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے شہیدوں کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’ آپ نے کیا جانور پال رکھے ہیں جنہیں شہیدوں کی حرمت کا بھی خیال نہیں آیا اور انہوں نے شہیدوں کے مجسموں کو سڑکوں پرگھسیٹا‘‘۔عمران خان کی ان حرکتوں کا فائدہ اسرائیل، بھارت اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے خواہشمند ممالک کو ہوا کیونکہ انہوں نے اسرائیلی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان اور اس کی سلامتی کے اداروں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی اور انہی دشمن ممالک کی خواہش پر اسے دہشتگرد ملک ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں تاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر پابندی عائد کر کے اسے اپاہج ممالک کی فہرست میں شامل کرایا جاسکے۔ عمران خان کا صرف ایک جملہ اس کے چاہنے والوں کی عقل ٹھکانے لگانے کے لئے کافی ہے جس میں انہوں نے ایک انٹر ویو میں انتہائی توہین آمیز لہجے میں کہا تھا کہ’’قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط ہے کہ جو رسول(ﷺ) کو آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں‘‘۔ اس بات کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کس کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور کیا کیا مقاصد حاصل کرنا ان کے مشن میں شامل ہیں؟