• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر سرکاری ٹیلی وژن پر پھٹ پڑے۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کے دوران سید نوید قمر نے کہا کہ سرکاری ٹی وی پر صرف علی محمد خان نہیں، ارسا یا پانی کے معاملے پر ہماری بات بھی سینسر کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے اسپیکر قومی اسمبلی ارکان اسمبلی کو گرفتار کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی بات پر سختی سے عمل کرائیں گے۔

پی پی رہنما نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نےجو زبان استعمال کی وہ قابل مذمت ہے، یہ زبان سیاسی تھی نہ ہی جمہوری تھی، اس کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر گھس کر گرفتاری کرنا پی ٹی آئی پر نہیں پارلیمنٹ پر حملہ ہے، یہ ایسی چیزیں ہیں، جس کی بنیاد پر ادارے بناتے ہیں۔

نوید قمر نے یہ بھی کہا کہ جب بادشاہ برٹش پارلیمنٹ پر حملہ کرتا تھا، تب سے یہ چیزیں بنی ہیں کہ کس کا اختیار کہاں شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف اسپیکر کا اختیار ہوتا ہے، اسپیکر کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ میں گھسنا اور گرفتاریاں کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

پی پی رہنما نے کہا کہ پاکستان میں بہت چیزیں خراب ہوتی دیکھی ہیں، غیرجمہوری چیزیں دیکھیں، کل کا واقعہ ایک نئی ریڈ لائن کراس کررہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر خاموش رہیں یا جواز پیش کریں تو کوئی حد نہیں کہ اگلا قدم کہاں ہوگا، جہاں اداروں پر حملہ ہوتا ہے وہاں ان کا دفاع کرنا ہوگا ورنہ جمہوریت، پارلیمنٹ بھول جائیں۔

نوید قمر نے کہا کہ کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر کرائیں گے، کس کےخلاف ایف آئی آر ہوتی ہے یہ سوال ضرور آئے گا، پولیس انکار کررہی ہے کہ کارروائی کرنے والے ان لوگ نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں کیمرے لگے ہوئے ہیں، شناخت کرنے کی مخلصانہ کوشش ہونی چاہیے، بتایا گیا کہ شناخت چھپانے کےلیے ہاؤس کی بتیاں بھی بند کی گئی تھیں۔

پی پی رہنما نے کہا کہ ہمیں اسے ہلکا نہیں لینا، ہمیں تہہ تک پہنچنا ہے، آج وہ منہ ڈھانپ کے آئے تھےکل کھلے منہ کے ساتھ بھی آئیں گے، یہ ناقابل قبول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں صرف پی ٹی آئی نہیں ہماری تقریریں بھی سنسر ہورہی ہیں، پچھلی دفعہ پانی پر بات ہورہی تھی تو کتنی بار رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

نوید قمر نے کہا کہ اگر یہی کرنا ہے تو بہتر ہے اسے بند کردیں، تقاریر سنسر کرنے پر صرف میں نے نہیں دیگر اراکین نے بھی احتجاج کیا، پسند کی چیزیں چلانا آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف پسند کی تقاریر دکھا کر تاثر دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں آزادی اظہار رائے ہے، ان کی پرانی سوچ ہے کہ وہ نہیں دکھائیں گے تو لوگوں کو پتا نہیں چلے گا۔

قومی خبریں سے مزید