اس وقت پاکستان کواپنے داخلی حالات، چاہے ان کا تعلق سلامتی کے امور سے ہو یا معیشت کا قضیہ ،دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کن حالات کا شکار ہے اور ان حالات سے گلو خلاصی کیسے ممکن ہے اور دنیا اور خاص طور پر امریکہ کے یہ کتنے مفاد کا معاملہ ہے کہ پاکستان اس صورت حال کو ماضی بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ اپنے مؤقف سے صرف دنیا کو آگاہ کرنے سے نہیں بلکہ ہم خیال بنانے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے اقوام متحدہ کا سربراہی اجلاس اہم پلیٹ فارم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس اجلاس میں شرکت کرنے کی غرض سے امریکہ روانہ ہو رہے ہیں اوریہ تمام اہداف یقینی طور پر ان کے پیش نظر ہونگےکیونکہ پاکستان نے اس وقت یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب بس ایک رسمی اقدام ہوگا یا اس سے ہم دور رس نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اہداف کو حاصل کرنے کی غرض سے کیا حکمت عملی اختیار کی جائیگی؟ کیا روایتی انداز سے ہٹ کر کوئی حکمت عملی تیار بھی کی گئی ہے، کی جا رہی ہے یا نہیں؟ یہ سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر کے بنیادی نکات میں ایسا کیا ہوگا کہ جو دنیا بھر کو توجہ مبذول کرنے پر مجبور کر دے۔ کشمیر، افغانستان، انڈیا سے پاکستانی تعلقات کی سرد مہری اور فلسطين پر کیا بات اور کیسے بات کرنی ہے۔ کیاوزارتِ خارجہ اس کی تیاری کر رہی ہے کہ دنیا سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ پاکستان کا مؤقف ان امور کے حوالے سے حقیقت اور زمینی حقائق کے عين مطابق ہے۔ دنیا بھر کی نبض میڈیا حکمت عملی پر رواں دواں رہتی ہے۔ پاکستانی میڈیا تو شہ سرخیوں میں جگہ دے ہی دےگا مگر صرف پاکستانی میڈیا میں جگہ بنانے، گفتگو ہونے سے تو مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عالمی میڈیا کے حوالے سے کیا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے؟ کیا وزیر اعظم کے بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے انٹرویو طے ہو چکے ہیں؟ امریکہ میں اس وقت انتخابات کی گہما گہمی ہے اور ان انتخابات کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں مزید کیا اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی دونوں جماعتوںری پبلکن اور ڈیموکریٹس نے مختلف تجزیاتی رپورٹس مرتب کی ہیں اور آئندہ انہی تجزیاتی رپورٹس کا پاک امریکہ تعلقات کی نہج کو متعين کرنے میں کلیدی کردار ہو گا۔ ان دونوں جماعتوں کے جن اراکین نے یہ تجزیاتی رپورٹس تیار کی ہیں کیا ان سے وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقاتیں شیڈول کا حصہ ہیں کیوں کہ اگر ان افراد تک ہی بات نہ پہنچ سکی تو مستقبل میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکہ میں پالیسی سازی میں تھنک ٹینکس کے کردار سے دنیا آشنا ہے۔ ابھی تک کتنے تھنک ٹینکس میںجانے یا ان کے ماہرین سے وزیر اعظم کی گفتگو ہو گی۔ جب ڈیموکریٹس، رپبلکن یا تھنک ٹینکس کی بات کی جاتی ہے تو تصور یہ پنپتا ہے کہ اس کیلئے تو واشنگٹن جانا ہوگا مگر یہ درست رائے نہیں اگر موثر انداز میں کوشش کی جائے تو یہ سب کچھ نیو یارک میں بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ امریکیوں کے ساتھ اور ان کے علاوہ دیگر ممالک کی شخصیات سے جو سائیڈ لائن پر ملاقاتیں ہونگی انکی عالمی میڈیا میں کوریج کی اس قدر ہی اہمیت ہے کہ جس قدر جنرل اسمبلی سے خطاب کی اہمیت۔ میڈیا کے حوالے سے ایک مکمل روڈ میپ کی ضرورت ہوگی جو اہداف کا تعين کر کے انکے حصول کیلئے ترتیب دیا جانا چاہئے۔ تاہم اس وقت وزارت خارجہ و اطلاعات میں اس نوعیت کی تيارياں دکھائی نہیں دے رہیں بلکہ صرف وقت گزاری کیلئے روایتی افسر شاہی کے طریقہ کار کو اختیار کیا جا رہا ہےحالانکہ وزیر اعظم کے دورے سے مفادات کے حصول کیلئے اب تک تو تمام تیاریاں مکمل ہو جانی چاہئے تھیں۔ یہ پاکستان کے پاس ایک موقع ہے، ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہمیں انڈیا سے کیا شکایات ہیں، افغان طالبان کے حوالے سے، ان کی ٹی ٹی پی کی کھلی مدد کرنے سے جو دشواریاں ہمیں در پیش ہیں وہ صاف صاف بیان کی جائیں، ہماری معاشی ضروریات کیا ہیں، انرجی ایران سے حاصل کرنے سے ہمیں کتنے فوائد حاصل ہونگے دنیا کو اس پر قائل کیا جا سکتا ہے جیسے عراق ہر برس ایران سے اشیا حاصل کرنے میں امریکہ سے استثنیٰ حاصل کر لیتا ہے، ہم بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ایس سی او اجلاس بھی اقوام متحدہ سے واپسی کے بعد بس سامنے ہی کھڑا ہو گا۔ راقم الحروف نے انہی کالموں میں چند ماہ قبل ذکر کیا تھا کہ اس سال وزیر اعظم چین پاکستان تشریف لارہے ہیں جس کا اب اعلان بھی ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ سے واپسی کے بعد اتنا وقت دستیاب نہیں ہوگا کہ اس وقت اس کی تیاری شروع کی جائے۔ اسلام آباد کو تو اس حوالے سے سجانے کا فیصلہ ہو چکا ہے مگر صرف اسلام آباد کو سجا کر اس ایس سی او اجلاس سے مفادات حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اس کانفرنس کے انعقاد اور اسکی قیادت کی پاکستان میں موجودگی بہت سارے معاملات پر پاکستان کیلئے سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ انڈین وزیر اعظم کی آمد کا تو امکان بہت کم ہے کیونکہ وہ اس سے قبل سربراہی اجلاس میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے مگر انکے وزیر خارجہ یا وفد کی آمد کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان نے اس اجلاس کے حوالے سے انڈین رویے پر کیسے رد عمل دینا ہے اور اگر کوئی بہتری کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے تو وہ کیسے حاصل کرنی ہے؟ اس پر عمیق نظری سے منصوبہ بندی ہونی چاہئے مگر ابھی یہ بھی نظر نہیں آ رہی جو پریشان کن امر ہے۔