• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ ستمبر دفاع، شہداء اور غازیوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عظیم مہینہ ہےکہ جب قوم متحد اور فوج کا جذبہ بے مثال ہو تو کسی بھی بڑے دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستانی قوم نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی قوم نے ایک جسم کی طرح دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی آزادی اور وطن کی سلامتی کو یقینی بنایا تھاآج ہمارا ازلی دشمن بھارت ایک بار پھر جنگی جنون میں مبتلا ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے، ہمیں 1965ء کے جذبے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پوری قوم کو ایک بار پھر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کی سازشوں کا موثر جواب دیا جا سکے۔ آج بھی، یومِ دفاع ہمیں ایک مضبوط اور متحد قوم ہونے کا پیغام دیتا ہے، جو کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک و قوم کو چھٹی جنریشن وارفیئر، معاشی، سیاسی اور دہشت گردی جیسے چیلنج کا سامنا ہے۔

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے دہشت گردی سے متاثر ہونے والا ملک ہے۔اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان نے دی ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ عوام میں اس وقت شدید اضطراب اور بے یقینی پائی جاتی ہے، آج ہماری معیشت جمود کا شکار ہے اور امورمملکت چلانا بھی مشکل نظر آرہاہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دوسرے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر گزارا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے عوام پر اضافی بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، قرض اتارنے کیلئے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے آئے دن بجلی، گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں جس نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابرہے جبکہ تجارتی خسارہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے، ترقی کی شرح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے جبکہ کاروبار انتہائی سست روی کا شکارہے جس کی وجہ سے بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ملک و قوم کو درپیش ان مسائل سے نجات اور معیشت کی بحالی اجتماعی سوچ اور حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔ وفاقی وزارتِ صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعداد و شمارسے بھی عوام میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وزارت کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24کروڑ میں سے 8کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔ ارباب اقتدار کی ناکام معاشی پالیسیوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

اس وقت لوگ مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔پاکستان میں 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں طرفہ تماشا یہ ہے کہ بغیر بجلی خریدے ہر سال 200ارب روپے آئی پی پیز کو ادا کر دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت گردشی قرضہ 2655ارب سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ ہر دور میں آئی پی پیز لگی ہیں اور 100میگاواٹ کے پلانٹ کو کاغذات میں 150 میگاواٹ دکھایا گیا ہے۔ پٹرول اوربجلی کے بھاری بلوں پر چند روپے کی کمی عوام کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے، وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ قوم کو حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جائے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں بجلی کی لاگت کے حساب سے قیمت کم کر کے ظلم و نا انصافیوں کے مارے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جانا چاہیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے اپنے معاشی ماہرین حکومتی پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ حکومت غرباء پر تو بوجھ ڈال رہی ہے مگر اشرافیہ کو بے لگام چھوڑا ہوا ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے24 آئی پی پیز کو 1200ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی جبکہ ان کی بجلی پیداوار صفر رہی ۔اس وقت سود کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے اورملک و قوم70 ہزار بلین روپے کے مقروض ہیں۔ملکی بجٹ کا نصف سے زائد قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ درحقیقت سود کی لعنت ختم کرنے سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کوبھی 2برس گزر گئے ہیں۔ اس پر عملدرآمد سے متعلق کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومت اخراجات میں کمی کے لیے گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی نوکریاں ختم کر رہی ہے، اس حکومتی فیصلے سے معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہو جائیں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگر صرف کرپٹ افسران کو ہی ہٹادیاجائے تو اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہو گا۔ اس وقت پاکستانی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔

آئی ایم ایف اور دیگر ادارے قرضے دینے کو تیار نہیں ہیں۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے شہریوں کا گھریلو بجٹ تباہ ہو چکا ہے اور لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ہمارے ارباب اقتدار کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کے حالات بڑی تیز ی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں، اپنی معاشی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کرنا چاہیے۔ دوسری جانب ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن معاہدے کی عدم پیش رفت کے حوالے سے عالمی ثالثی عدالت میں جانے کا اعلان تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتاہے۔ حکومت فوری طور پر ایرانی قیادت کے تحفظات دور کرے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا، مگر بد قسمتی سے حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی دبائو کا بہانہ بنا کر اس اہم منصوبے سے راہ فرار اختیار کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین