• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے حساب سے سب سے بڑا صوبہ ہے، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور جغرافیائی اہمیت اور نسلی تنوع کے باعث ایک پیچیدہ اور حساس علاقے کا حامل ہے۔ اس صوبے میں ریاست مخالف عسکریت پسندی کی موجودگی اور بھارت کی مداخلت نے یہاںکے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہاں کے لوگوں کے شدید احساسات، معاشرتی و اقتصادی مشکلات اور بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کیساتھ جڑے ہوئے کئی عوامل نظر آتے ہیں۔ اس علاقے میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور انکی کارروائیاں حکومت پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند گروہ اور دیگر عسکریت پسند تنظیمیں نہ صرف یہاںسیکورٹی فورسز پر حملے کرتی ہیں بلکہ مقامی شہریوں کو بھی نشانہ بناتی ہیں۔بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کے کئی پہلو ہیں جن پر مختلف سطحوں پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ بھارت،جو ایک علاقائی حریف ہے، بلوچستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں شامل ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے فنڈنگ اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔ ان تنظیموں کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردکارروائیوں کو مہمیز دے سکیں۔ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت صرف خفیہ سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی اس کی کوششیں جاری ہیں۔ بھارتی حکام نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر بلوچستان کی صورتحال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔ بھارت کی جانب سے بلوچستان کی آزادی کی حمایت کے اعلانات نے بھی اس علاقے میں مزید عدم استحکام پیدا کیا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) ایک بڑا اقتصادی منصوبہ ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کیلئےشروع کیا گیاہے۔ اس منصوبے کے تحت، مختلف انفراسٹرکچر پروجیکٹس، جیسے کہ سڑکیں، بندرگاہیں اور توانائی کے منصوبے، بلوچستان میں تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ CPEC کی تکمیل سے بلوچستان ایک اہم اقتصادی اور تجارتی مرکز بن جائیگا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر بندرگاہ کو عالمی تجارتی راستوں سے جوڑا جائے گا، جو بھارت کے اقتصادی مفادات کیلئے ایک سنگین دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔

بھارت اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ CPEC کی کامیابی اُس کی علاقائی اور اقتصادی پوزیشن کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت کر کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ بھارت کی اقتصادی پالیسیوں میں بلوچستان کے سی پیک منصوبے کو ایک بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ بلوچستان میں افراتفری اور عدم استحکام پیدا کر کے اس اقتصادی منصوبے کی کامیابی کو روک سکے۔بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کے نتیجے میں متعدد منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے بلوچستان کے مقامی امن و امان کی صورتحال کو بگاڑ دیا ہے۔ عوام خوف و ہراس کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ معیشت بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات نے مقامی کاروبار اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی کشیدگی موجود تھی، اور بھارت کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت نے اس کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کی بلوچستان میں مداخلت نے پاکستان کی ساکھ کو متاثر کیا۔ بلوچستان میں ریاست مخالف عسکریت پسندی اور بھارت کی مبینہ مداخلت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔ بھارت کی جانب سے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت اس کی خطے میں اقتصادی اور جغرافیائی مفادات کی حفاظت کی کوششوں کا حصہ ہے۔ CPEC کے کامیاب ہونے سے بھارت کے تجارتی مفادات متاثر ہو سکتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے صرف فوجی اقدامات ہی کافی نہیں ہیں بلکہ اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے اور عالمی سطح پر اس کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ عالمی برادری کو بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرے اور اپنے داخلی امور میں بھی اصلاحات کرے تاکہ بلوچستان میں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔

تازہ ترین