چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری ملازمین سے متعلق اپیل پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ یہاں سیکشن افسر ملک چلا رہے ہیں۔ کسی سیکشن افسر کے ذریعے نہ آئین بنایا جاسکتا ہے نہ قانون۔
سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین سے متعلق اپیل پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں۔
دوران سماعت وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ایک ایس آر او کے ذریعے ملازمت پر کیس چلا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایس آر او کس نے جاری کیا۔ اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ ایس آر او سیکشن افسر کے ذریعے جاری ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں سیکشن افسر ملک چلا رہے ہیں، کسی سیکشن افسر کے ذریعے نہ آئین بنایا جاسکتا ہے نہ قانون۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ایس آر او متعلقہ حکام کے ذریعے جاری ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ حکام کے ذریعے ایس آر او جاری کرنے کا سلسلہ ضیاءالحق سے شروع ہوا، بیوروکریسی نے دستخط کرنا چھوڑ دیے تو ضیاء الحق نے کہا متعلقہ مجاز حکام لکھ دو، مجاز حکام لکھ تو دیا جاتا ہے لیکن یہ علم نہیں ہوتا وہ ہے کون، کسی کاغذ کی کوئی بنیاد بھی تو ہونی چاہیے، والد کی جگہ بیٹے کو نوکری میں کیسے کوٹہ مل سکتا ہے؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ سیکشن 10 اے کے تحت یہ اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بیوروکریٹس کے بچوں کو سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، یہ کیا بات ہوئی ایک کام کرے اور کہے میری نسلوں نے بھی کام کرنا ہے۔ جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں، سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملتی ہے، مرنے کے بعد بیوہ کو بھی پنشن ملتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی یہ تجویز آئی تھی کہ ملازمین کے بچوں کو نوکریاں دی جائیں، میں نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔
عدالتی حکمنامہ میں کہا گیا کہ 2006 میں گریڈ 2 کیلئے ضلع ایبٹ آباد میں نوکری کا اشتہار دیا گیا۔ آئین امتیازی سلوک روا رکھنے کی ممانعت کرتا ہے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت ایسے تمام نوٹیفکیشن واپس لے جو میرٹ کے خلاف ہیں۔