• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیس پچیس سال پہلے میں ایک ادبی اخبار’احساس نو‘ کے نام سے شائع کرتا تھا جو بعد میں ’مکمل‘ کے نام سے ہر پندرہ روز بعد شائع ہوتاتھا۔ ملک بھر سے ادبی سرگرمیوں کی خبریں نیوز لے آئوٹ کی طرح شائع ہوتی تھیں۔ یہ اخبار ادبی حلقوں میں محبتیں، لڑائیاں، فساد اور قربتیں بڑھانے کا باعث بنتا رہا۔اخبار کا دفتر لکشمی چوک پر تھا جہاں ایک دن ایک شاعر صاحب تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ انہوں نے ایک سروے کیا ہے کہ موجودہ عہد میں کون بڑا شاعر ہے ۔ ان کی خواہش تھی کہ میں یہ سروے اپنے اخبار میں شائع کروں۔ سروے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ بالکل غیرجانبدارانہ ہے اور مختلف شاعروں سے پوچھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ میں نے غور سے سروے کو دیکھا تو اُس میں پانچ بڑے اور زندہ شعراء کے نام شامل کیے گئے تھے۔ سروے میں شامل لوگوں کو رائے دینے کی مکمل آزادی تھی۔ اِس آزادی کے نتیجے میں جو رزلٹ سامنے آرہا تھا وہ ایک ایسے شاعر کو فتح دلا رہا تھا جس کے شاگردوں میں سروے کرنے والے صاحب خود بھی شامل تھے۔ میں نے بڑا سر کھپایا، غور کیا کہ موصوف نے کوئی گڑ بڑ تو نہیں کی۔ لیکن بظاہر سروے بہت ایمانداری اور غیر جانبداری کا تاثر دے رہا تھا۔میں نے شاعر صاحب سے دودن مانگے تاکہ میں سروے کو بغور دیکھ سکوں۔ اس کے بعد میں دن رات یہی سروے لے کر بیٹھارہا ۔ ایک دن اسی ’تفتیش‘ میں پتا چلا کہ سروے کرنے والے شاعر نے انہی لوگوں سے رائے طلب کی ہے جن کے بارے میں اُسے یقین تھا کہ وہ اُس کے پسندیدہ شاعر کو ہی بڑا شاعر مانتے ہیں۔یعنی سو فیصد غیر جانبدار ہوکر بھی جانبداری دکھائی جارہی تھی۔ یہ سروے تو میں نے شائع نہیں کیا لیکن اس کے بعد مجھے سروے کی تکنیک سمجھ آتی گئی۔ میرا تعلق لکھنے والوں کی اُس نسل سے ہے جنہوں نے پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک کا سفر کیا ہے۔سیاسی سروے پرنٹ میڈیا سے ہی شروع ہوئے اور اب الیکٹرانک میڈیا بھی ان میں بھرپور دلچسپی لیتاہے۔ آپ سروے کرنے والے احباب سے بات کرکے دیکھیں تو تقریباً سب کا یہ دعویٰ ہوتاہے کہ مجھ سے زیادہ غیرجانبدارانہ سروے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہر اینکر کے پاس اپنے پروگرام کی ریٹنگ ہوتی ہے جو عموماً ٹاپ ٹین میں شامل ہوتی ہے۔ریٹنگ کے مختلف پیرامیٹرز ہیں لیکن اگر آپ تھوڑے ذہین ہیں تو اپنے پروگرام کی وہ والی ریٹنگ باآسانی دکھا سکتے ہیں جس میں آپ سارے چینلز کی فہرست میں اوپر جگمگا رہے ہوں گے۔پچھلے دنوں ایک چینل کے اینکر دوست نے اپنے پروگرام کی ریٹنگ شیئر کی اور فخر سے لکھا کہ ٹاپ ٹین میں آنا اللّٰہ کا کرم ہے۔ میں نے پوچھا کہ حضور آپ کا تو چینل ہی پورے کیبل سسٹم پر نہیں آرہا تو یہ ریٹنگ کیسے آگئی؟ اس پر انہوں نے دانت پیسے اور مجھے ایجنسیوں کا ٹائوٹ قرار دے کر قطع تعلق کرلیا۔

ہمارے ہاں زیادہ تر سروے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔اگر کبھی آپ سروے کرنے والے صحافیوں پر غور کریں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ سروے کا نتیجہ کیانکلے گا۔کئی ٹی وی چینلز میں تو سروے کے نتائج ایڈیٹنگ میں طے پاتے ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو دو سولوگوں نے پسند اور لگ بھگ دو سو نے ہی ناپسند کیا ہے تو بڑے آرام سے اپنی پسند کی پارٹی کے لوگوں کی رائے شامل کرلیں، باقی کاٹ دیں۔یہ سروے چونکہ کہیں چیلنج نہیں ہوتے لہٰذا میدان کھلا ہوتاہے۔اس سے بھی زیادہ مزے کی بات ہے کہ الیکشن میں بے شک سروے کا رزلٹ الٹ آجائے، اکثر صحافی پھر بھی فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ یہ تو میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔جو ذرا زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں وہ ایک اور دلیل دیتے ہیں کہ سروے تو میرا ہی ٹھیک تھا، بعد میں انتظامیہ نے گڑ بڑ کردی تو اس میں میرا کیا قصور۔سروے کرنے والے اکثر چالاک صحافیوں کو معلوم ہوتاہے کہ کون سی جگہ ، کون سے چوک پر کون سی رائے زیادہ سامنے آئے گی لہٰذا یہ Randomlyوہاں پہنچ جاتے ہیں پھر معصومیت سے صرف سوال پوچھتے ہیں اور جواب آپ تک پہنچا دیتے ہیں۔خود سوچئے اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے اور سوال پوچھنے والا صحافی کسی ایک پارٹی کا لگ بھگ اسپوکس پرسن بھی ہو تو جواب کیا آئیں گے؟اس عمل میں ایک اور دلچسپ نفسیاتی حربہ بھی استعمال کیا جاتاہے جس میں سوال کو گھما کر جواب اپنے مطلب کا حاصل کرلیا جاتاہے مثلاً’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک لٹیروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ میں چلا جائے؟‘۔ایسے سوال کے عقب میں چونکہ جواب بھی جھانک رہا ہوتاہے ا س لیے رائے دینے والوں کو زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔سروے کرنے والے صحافیوں کی اکثریت یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ بڑے سائنسی طریقے سے سروے کرتے ہیں، اسے عام بندہ نہیں سمجھ سکتا، اس میں بڑی کیلکولیشنز ہوتی ہیں ۔اگر آپ تفصیل پوچھیں تو ایک لمبی چوڑی تھیوری سننے کو ملتی ہے لیکن یہ سروے میں اپلائی کیسے ہوئی، کیا اس میں کہیں جانبداری کا عنصر شامل رکھا گیا، کوئی ڈنڈی ماری گئی؟ اس کا حتمی جواب دینے کا اختیار بھی سروے کرنے والے صحافی کاہوتا ہے جسے غلط ثابت کرنے کا طریقہ کار’کال پوپر‘ نے بھی نہیں بتایا۔لہٰذا عزیزان ِ من ! نوشتہ دیوار اگر سروے میں نہ آرہا ہوتو کھٹک جائیں اور سروے کی بنیاد پر رائے بنانے سے گریز کریں۔یہ چالاکیاں انٹرنیشنل سرویئرکمپنیاں بھی خصوصاً سیاسی سروے میں دکھاتی رہتی ہیں۔پرسوں ایک چائے کی کمپنی نے شاپنگ مال میں مجھے گھیر لیا کہ آپ کون سی چائے پیتے ہیں؟ میں نے کہا ’فلاں‘۔ انہوں نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑے فلاسک سے اپنی چائے کپ میں ڈالی اور فرمایا۔اگر یہ چائے آپ کو پسند آگئی تو اس کا بڑا پیکٹ آپکو مفت ملے گا۔ میں نے ایک گھونٹ لیا اور دل کی گہرائیوں سے کہا’یہی سب سے اچھی ہے‘۔

تازہ ترین