مولانا شعیب احمد فردوس
پھولوں نے شبنم کے قطروں سے وضو کیا، اور یسیٰن و طہٰ کی صدا بلند کی، آسمان نے زمین کی بلائیں لیں اور " یآیُّھا المزمل " کی ندا لگائی ، درخت " یآیُّھا المدثر " کہتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھے، پہاڑ " والضحیٰ" کی آواز سے گونج اٹھے، مرغانِ خوش الحان نے " نور علیٰ نور" کی بانگ دی، چرند و پرند نے " جاء الحق" کی گل افشانی کی، چاند اور تاروں نے " سراجاً منیراً" کی صدائے مرحبا لگائی، سورج نے " جاء نصراللہ " پڑھ کر طلوع کی تیاری کی، ہوائے جاں فزا " جاء بالصدق" کہتی ہوئی چہار سُو پھیل گئی، باغ جہاں " یُزکّیھم " کی خوب صورت صداؤں سے معطر ہو گیا۔
فرشتوں نے "لقد جاءکم" کا مژدہ سنایا، کائنات کا ذرہ ذرہ خوشی سے نہال ہو گیا، کیوں کہ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہو چکی تھیں، 20 اپریل 571 ع ، ربیع الاول کی درخشاں اور تاباں صبح صادق، ایک ایسے " صادق و امینﷺ‘‘ کی دنیا میں تشریف آوری کے ساتھ طلوع ہوئی ، جسے انسانیت کی معراج سے نوازا گیا، جس کا وجود وجہ وجود کائنات بنا، جس کے مبارک سر پر رب کائنات نے " خاتم النبیین " کا تاج رکھا، جسے خلق عظیم کی دولت سے مالا مال کیا گیا، جسے " رحمۃ للعالمین " کی خلعت پہنائی گئی۔
"امام الانبیاء " جن کا شرف قرار پایا، جنہیں " اعطینٰک الکوثر " کی نوید سنائی گئی، " مقام محمود " جن کے رتبوں کی اوج ہے۔عالم انسانیت میں یہ ایک ایسا انسان تھا ،جس نے پوری انسانیت کو جینے کا شعور و آگہی دی، عالم بشریت میں یہ وہ بشر تھا جس نے بشر کو " شر " اور "خیر " میں امتیاز کرنا سکھایا، ضلالت و گمراہی کے بے ہنگم راستوں پر چلنے والوں کو " صراط مستقیم " کی راہ دکھائی۔
نفس پرستوں کو " خدا پرستی" کی تعلیم دی، صنم آشناؤں کو " عبدیت خداوندی " سے آشنا کیا، در در بھٹکنے والوں کو خدائے بے نیاز کے حضور جبین نیاز جھکانے کی تعلیم دی، دنیا کے ظلمت کدے میں ایمان کی قندیلیں روشن فرمائیں، گالیاں دینے والوں اور راہ میں خار بچھانے والوں کو دعاؤں کے گل دئیے ، زہریلے ہونٹوں کو میٹھے بول دئیے، باب ِجہالت کو بند کیا اور علم کے دروازے کھول دئیے، گرتے ہوؤں کو تھاما، بے کسوں کی دست گیری فرمائی، باہم خون کے پیاسوں کو اخوت کا آب حیات پلایا، مایوس گناہ گاروں کے زخموں پر " لا تقنطُوا من رحمة اللہ " کا مرہم لگایا، جفا سرشتوں کو وفا پرستی کا درس دیا، ظلم و ستم کے ماروں کو " لا تحزنوا( غم گین نہ ہو ) " کی ڈھارس دی۔
پیام موت بن کر حملہ آور ہونے والوں کو پیام حیات دیا، مردم آزاروں کو مردم آزاری سے ہٹا کر مردم نوازی پر لگایا، اوروں کے واسطے سیم وزر و گوہر لٹا دئیے ، لیکن خود بادشاہی میں فقیری کی، خود بھوکا رہنے میں لذت جب کہ اوروں کو کھلانے میں فرحت محسوس کی، وہ دانائے سبل، مولائے کل، ختم الرسل کہ جس نےغبار ِراہ کو بخشا فروغ وادی سینا،نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر،وہی قرآں، وہی فرقاں ،وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ، راست بازوں کے سردار ، پاک بازوں کے سرتاج ، فخر موجودات ، محبوب رب کائنات، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں درود و سلام ہوں کہ اللہ کا ذکر جن کا انیس، معرفت جن کی پونجی، اعتماد الٰہی جن کا خزانہ، محبت جن کی بنیاد، علم جن کا ہتھیار، صبر جن کی چادر ، عاجزی سرمایہ افتخار، زہد جن کا پیشہ، یقین جن کی روزی، طاعت حق جن کی عزت، جہاد جن کی طبعی فطرت اور نماز جن کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی۔
بعد از خُدا بُزرگ تُوئی، قصہ مختصر...!