آپ نے اکثر یہ صورتحال ملاحظہ کی ہوگی کہ کسی چوک میں ٹریفک کا ہڑبونگ مچ جاتا ہے۔ ہر کوئی پہلے نکلنے کے چکر میں مزید پھنس جاتا ہے۔ حتی کہ ٹریفک ایک گنجل کی شکل اختیار کر جاتا ہے ایسے میں کچھ ڈرائیور اپنی گاڑیاں بند کر کے اچھے وقت کا انتظار کرنے لگتے ہیں تو کچھ بے چینی کے عالم میں پاں پاں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں بالاخر کچھ خدائی خدمت گار سامنے آتے ہیں اور جیسے تیسے ٹریفک کی روانی کا کچھ بندوبست کرتے ہیں یوں گھنٹوں کی رسوائی کے بعد، کسی سرکاری اہلکار کی مدد کے بغیر فطری طور پر راستہ کھل جاتا ہے۔ وطن عزیز بھی پچھلی کئی دہائیوں سے اس ٹریفک جام کی صورتحال سے دو چار ہے۔ ایک طبقہ انتظار کر رہا ہے کہ کوئی سرکاری اہلکار آئے اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے جام ٹریفک کو کھولنے کا بندو بست کرے جبکہ دوسرا طبقہ قدرت کے فطری نظام پر بھروسہ کیے ہوئے ہے کہ پروردگار ایک نہ ایک دن پاکستانی عوام کے دن ضرور پھیرے گا آخر قومِ فرعون کو بھی تو فرعونی جبر و استبداد سے نجات مل ہی گئی تھی۔۔۔۔ بھلے تین سو سال ہی لگے۔ ایک اور طبقہ ہے جو اسی حال میں خوش ہے کیونکہ ٹریفک جام میں اس کا کاروبار چلتا ہے۔ انہیں حالات کی ستم ظریفی سے نہیں اپنے کاروبار سے غرض ہے۔ یہ اس ملک کی ایلیٹ کلاس ہے ملک کے حالات کیسے بھی ہوں ان کے حالات ٹھیک ہی رہتے ہیں۔ تاہم سب سے بڑا طبقہ آس لگائے بیٹھا ہے۔ ہر نئی حکومت، ہر نیا سیٹ اپ انہیں آس کا نیا گلدستہ پیش کر دیتا ہے جس کے پھول آہستہ آہستہ مرجھانے لگتے ہیں۔ ابھی مایوسی تک نہیں پہنچتے کہ نیا سیٹ اپ آ جاتا ہے۔ یوں پھر ایک نئی آس بندھ جاتی ہے۔ آس کے اسی بندھنے اور ٹوٹنے کا کھیل گزشتہ 77 برسوں سے جاری ہے۔ جب استحکام کمزور ہوتا ہے تو لامحالہ حکومتی رٹ بھی کمزور ہی رہتی ہے۔ جب رٹ کمزور رہتی ہے تو کچے کے ڈاکو پکے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کسی جیب کترے کو اول دن سے ہی کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو وہ خطرناک ڈاکو نہیں بنتا۔ جُرم، جُرم ہی ہوتا ہے چاہے وہ معمولی نوعیت کا ہو یا سنگین نوعیت کا۔ اگر چھوٹے جرم کو معمولی سمجھ کر مجرم کو رعایتیں دے دی جائیں تو وہ عادی مجرم بن جاتا ہے اور پھر کچا ڈاکو پکا بن جاتا ہے۔ مہذب معاشروں میں یا ترقی یافتہ ممالک میں جیب تراشی، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی، ون وے کی خلاف ورزی۔ دھوکہ دہی، لین دین کے معاملات، گھریلو تنازعات، رشوت یا سرکاری امور میں غفلت وغیرہ کو معمولی جرائم سمجھ کر معاف نہیں کر دیا جاتا بلکہ بھاری جرمانے اور قید و بند کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ چھوٹے جرائم کی بیخ کنی سے ہی بڑے جرائم کی روک تھام ممکن ہے مگر ہمارے ہاں تو چھوٹے مجرموں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے پُرمسرت ایام پر سینکڑوں کو رہا کر دیا جاتا ہے یا قید میں تخفیف کر دی جاتی ہے پھر انہی میں سے اکثر دوبارہ اس سے بھی بڑے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ ان کا حوصلہ بڑھ چکا ہوتا ہے۔ کچے کے ڈاکو کوئی ایک دو دن میں پکے ڈاکو نہیں بنے نہ ہی کوئی چھوٹو گینگ راتو رات بڑا بن گیا ہے یہ کم و بیش تین دہائیوں کا عرصہ ہے جس میں حکومتوں کی لاپرواہی، سستی، کوتاہی اور چشم پوشی کے باعث کچے کے علاقے کے کچے ڈاکو طاقتور ترین پکے ڈکیت گینگ بن چکے ہیں۔ اب جب کہ پانی سر سے گزر چکا ہے گیارہ پولیس اہلکار ڈاکو گردی کا شکار ہو چکے ہیں تو اب حکومتی ایوانوں سے پکار اٹھنے لگی ہے اور ڈاکوؤں کے سروں کی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔ ویسے تو تقریبا ڈیڑھ برس پہلے بھی کچے کے علاقے میں سرچ آپریشن کیا گیا تھا۔۔۔ اعلان کیا گیا تھا کہ فلاں تاریخ سے آپریشن شروع کیا جائے گا جدید اسلحہ و ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ گویا آپریشن سے پہلے ہی ڈاکوؤں کو باخبر کر دیا گیا تھا کہ "لُک چُھپ جانا مکئی کا دانہ راجے کی بیٹی آ۔۔۔۔گئی" پنجاب میں بچے چُھپن چُھپائی کھیلتے ہیں جس بچے یا بچی کی باری ہوتی ہے وہ یہ آواز لگاتا یا لگاتی ہے کہ جس نے چُھپنا ہے وہ چُھپ جائے ڈھونڈنے کیلئے راجہ کا بیٹا یا بیٹی آ رہی ہے۔۔۔۔! یہ ایک کھیل ہے جس میں ایسا ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے بھلا پولیس ریڈ اس طرح ہوتی ہے؟ جانور بھی جب دوسرے جانور کا شکار کرتے ہیں تو وہ چھپ کر کرتے ہیں۔ جبکہ یہ عجیب سرچ آپریشن ہے کہ اعلان کیا جاتا ہے۔ "ہم آ رہے ہیں..." بہرحال کچھ باتیں نالائق عوام کی سمجھ میں آئی ہیں نہ آئیں گی۔ کس کس کا ذکر کریں ہماری 77سالہ تاریخ میں ایسی ایسی مضحکہ خیزیاں واقع ہوئی ہیں کہ اب تو ہنسی بھی نہیں آتی۔ ہمارا معاشرہ کچھ اونٹ کی طرح نہیں ہوتا جا رہا ۔؟ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔؟ جو کام ہمیں نہیں کرنے چاہیئں وہ کر رہے ہیں اور جو کرنے چاہیئں وہ نہیں کرتے۔ اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک لڑکا اے ٹی ایم سے کچھ پیسے نکال کر لایا پیچھے ڈاکو لگ گئے گھر تک آ گئے گیٹ پر والد بھی نکل آئے چھینا چھپٹی میں ڈاکوؤں نے گولی چلا دی والد موقع پر ہلاک۔ بجلی کا بل بھائی نے بھائی مار ڈالا۔ امیر خاتون کی پراڈو نے پانچ افراد کو کچل ڈالا۔۔۔ باہر نکلیں تو یوں لگتا ہے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ ہر طرف قانون کی دھجیاں بکھرتی نظر آتی ہیں۔ نور مقدم کیس کا کیا ہوا؟ عزیر بلوچ کا کیا بنا۔۔۔؟ بیسیوں کیس ہیں جن کی وقوع پزیری تو معلوم ہے نتیجہ نامعلوم .... رات گئی بات گئی ۔ یہاں پہاڑ جیسے جرائم پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تو رائی کے دانے کا کیا تذکرہ۔۔۔؟ جرم ہوتا ہے سزا نہیں ہوتی ایسے معاشرے میں کچے ڈاکو پکے ڈاکو نہ بنیں تو اور کیا ہو۔۔۔؟ آخری جملہ! سزا ہی معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی پہلی اور آخری تدبیر ہے-