میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کے باعث حکومت، دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے 12ارب ڈالر کے سیف ڈپازٹس کو 3سال کیلئے رول اوور کرانے کے علاوہ خلیجی بینکوں سے 4ارب ڈالر کے کمرشل لون بھی لینے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ان بینکوں نے پاکستان کی موجودہ کریڈٹ ریٹنگ Caa3 کے باعث بلند شرح سود پر قرضوں کی پیشکش کی تھی۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے 3 سالہ قرض پروگرام کی منظوری میں بھی تاخیر ہورہی تھی اور پاکستان، آئی ایم ایف کی 4ستمبر کو ہونیوالی بورڈ میٹنگ کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف 12جولائی کو اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جسکی منظوری آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے دینی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، پاکستان کو مالی امداد دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں جسکے بعد پاکستان کے قرض کی منظوری آئی ایم ایف کے بورڈ میٹنگ کے ایجنڈے پر آگئی ہے اور میں گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی وزراء سے ہونیوالی گفتگو سے پرامید ہوں کہ اِن شاء اللّٰہ آئندہ آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ میں پاکستان کا طویل المیعاد قرض پروگرام منظور ہو جائے گا۔ حکومت نے افراط زر میں کمی کی ہے جس سے مہنگائی 13فیصد سے کم ہوکر 9.6فیصد تک آگئی ہے جسکی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ مانیٹری پالیسی کے جائزے میں ڈسکائونٹ ریٹ میں 2فیصد کمی کی ہے جو 17.5فیصد پر آگیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی 278.50روپے پر مستحکم ہے لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ ہمارے قرضوں پر صرف سود کا بوجھ مجموعی ریونیو کے 55فیصد تک پہنچ گیا ہے یعنی ہمارے 9800ارب روپے کے ریونیو میں سے آدھے سے زیادہ سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ ملک کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے پیش نظر موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کرتے ہوئے Caa2 اور آئوٹ لک مستحکم سے ’’مثبت‘‘ کردیا ہے۔ موڈیز کے مطابق پاکستان کا ڈیفالٹ رسک کم ہوگیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر جون 2023ء سے دگنا ہوکر 9.4ارب ڈالر ہوگئے ہیں لیکن پاکستان کو اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بہتر بنانے کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر مزید بہتر بنانا ہونگے۔ پاکستان نے سعودی عرب سے اضافی 1.5ارب ڈالر سیف ڈپازٹس کی درخواست کی تھی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں مجموعی طور پر 15رب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا جس کیلئے سعودی عرب نے بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ریکوڈک منصوبے میں 15فیصد سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان میں آئی ٹی، زراعت، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں SIFC کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ہدایت دی ہے۔ یاد رہے کہ جولائی میں دنیا کی دوسری بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے بھی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کیا تھا لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ موڈیز کے مطابق اضافی ٹیکسز اور مہنگی بجلی کے باعث عوام میں سماجی تنائو بڑھ رہا ہے جو موجودہ اتحادی حکومت کیلئے اصلاحات پر عملدرآمد میں مشکلات پیدا کرے گا جبکہ فچ کے مطابق پاکستان میں الیکشن کے بعد سے اب تک مسلسل سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی معاشی بحالی کیلئے خطرہ ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے فنانس، کامرس اور معاشی امور جس کا میں ممبر ہوں، کے اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر تجارت جام کمال، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، چیئرمین ایف بی آر، نیشنل بینک کے صدر رحمت اللہ حسینی، فنانس، تجارت اور TDAP کے وفاقی سیکریٹریز کے ساتھ ملکی معیشت پر تفصیلی میٹنگز ہوئیں اور آئی ایم ایف سے مذاکرات پر اِن کیمرہ بریفنگ دی گئی جسکے پیش نظر میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ’’ملکی معیشت میں نہ سب کچھ اچھا ہے اور نہ سب کچھ خراب ہے۔‘‘ ملکی معیشت کے کئی شعبوں میں بہتری آئی ہے جس میں افراط زر، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں کمی، ترسیلات زر، زرمبادلہ کے ذخائر، ریونیو وصولی میں اضافہ اور روپے کی قدر میں استحکام شامل ہے جبکہ حکومت کو درپیش سنگین چیلنجز میں ملک میں مہنگائی، بجلی کی قیمتوں اور آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے سرکولر ڈیٹ یعنی گردشی قرضوں میں اضافہ ہے جو 6600 ارب تک پہنچ گیا ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ بالآخر آئی پی پیز حکومت کیساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر آگئے ہیں اور ملکی مفاد میں باہمی اتفاق رائے سے معاہدوں پر نظرثانی کیلئے تیار ہوگئے ہیں جو اشد ضروری تھا لیکن پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، بجلی سپلائی کرنیوالے ڈسکوز کی ری اسٹرکچرنگ اور نجکاری، بلند شرح سود، بیرونی سرمایہ کاری اور نجی شعبوں کے قرضوں میں کمی، ملکی قرضوں اور سودکی ادائیگیوں میں ناقابل برداشت اضافہ، کرپشن، بیڈ گورننس اور سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کی بحالی میں سنگین رکاوٹیں ہیں۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ہمیں پاک فوج کیساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مسائل کا حل صرف گرینڈ ڈائیلاگ ہے جس کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل 11 رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ملکی سلامتی اور مفاد کے پیش نظر مذاکرات شروع کریں تاکہ ملک کو درپیش سنگین چیلنجز پر مل کر قابو پایا جاسکے اور سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام ختم ہوسکے۔