• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنتے آئے تھے کہ چور کبھی نہ کبھی پکڑا جاتا ہے۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب کوتوال چوری کے الزام میں پکڑا جاتا ہے۔ سرکار اس قدر لائق فائق تیز اور چالاک ہوچکی ہے کہ آپ کی تدفین کے ایک سو برس بعد بھی اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کی ڈگری جعلی تھی۔ اس لئے آپ کو قبر سے نکال کر ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اچھی بات ہے۔ ہیرا پھیری کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرکار کے پاس دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ جعلی ڈگری کے بل بوتے پر آپ کب تک موج مستی کرتے رہیں گے؟ حکومتیں بال کی کھال اتارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اچانک پتہ چلتاہے کہ فلاں معتبر پروفیسر کی ڈگری جعلی ہے۔ دھر لیا جاتا ہے۔ ثبوتوں اور گواہوں کی بنا پر معتبر پروفیسر کی گت بنتی ہے۔ حکومتوں کے سرکاری کارندے معتبر پروفیسر کا وہ حشر کرتے ہیں جس کا آپ صرف تصور کرسکتے ہیں، مگر تحریری طور پر بیان نہیں کرسکتے۔اب میں آپ کو مزے کی بات سناتا ہوں۔ پروفیسر کا کریا کرم ہو جانے کے بعد نہ جانے کہاں سے کھوجی عالم وجود میں آجاتے ہیں۔ کھوجی حضرات کھوج لگانے کے بعد انکشاف کرتے ہیں کہ معتبر پروفیسر نے تقریباً پچیس تیس برس یونیورسٹی میں طلبا کو تعلیم اور تربیت سے نکھارا تھا۔ معتبر پروفیسر کے زیر تعلیم رہنے والے طالب علم اعلیٰ عہدوں پر براجمان تھے۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی، ڈی آئی جی، انکم ٹیکس کمشنر اور اسی نوعیت کے بیس اکیس اور بائیس گریڈ کے عہدوں پر کام کر رہے تھے۔ کھوجیوں نے سرکار سے سوال کیا کہ معتبر پروفیسر کی ڈگری اگر جعلی تھی تو پھر ان کا ہر کام جعلی سمجھنا چاہئے۔ جعلی ڈگری والے پروفیسر سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بھی جعلی ہیں۔ ان کو اپنے عہدوں سے فارغ کرنا قانونی تقاضا ہے۔اسی طرح سیاسی لبادہ میں لپٹے ہوئے سرکاری کارندے ایک اعلیٰ پائےکے انجینئر کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے۔ انجینئر کے خلاف کرپشن کے کیسز بنانے کی کوشش کی گئی۔ خاطر خواہ بات نہیں بنی۔ انجینئر نے دو چار زبردست پل بنوائے تھے۔ ان پر پُل بنانے کے مختص فنڈ سے بڑی رقم ہڑپ کرنے کا الزام لگا کر عدالت کے حضور پیش کیا گیا۔ برسوں کیس عدالت میں چلتے رہے۔ مگر سرکاری کارندے کچھ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ کھسیانی بلی بن کر پریس کانفرنسوں میں کھمبا نوچتے رہے، اپنا موقف بیان کرتے رہے۔ آخر کار سیاسی لبادے میں لپٹے ہوئے سرکاری افسروں نے پرانا حربہ آزمایا۔ انجینئر پر الزام لگایا گیا کہ اس کی ڈگری جعلی تھی۔ سیاسی لبادے میں ملبوس سرکاری افسر اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ انجینئر کی ڈگری جعلی تھی۔ اس کے بعد انجینئر کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بیان سے باہر۔ آپ صرف تصور کرسکتے ہیں کہ بیچارے انجینئر کو ذلتوں کی کیسی کیسی چکیوں میں پیسا گیا۔ سیاسی لبادےمیں لپٹے ہوئے سرکاری افسروں نے انجینئر کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ہمارے خود مختار کھوجیوں نے سرکار سے پوچھا کہ انجینئر کے بنائے دو چار پل اس لئے گرا دیے جائیں گے کہ پل بنانے والے انجینئر کی ڈگری جعلی تھی؟ جواب ندارد۔

پندرہ بیس برس گزر جانے کے باوجود موردالزام انجینئر کا بنایاایک پل نہیں، سب پُل کارکردگی میں روز اول کی طرح عالیشان اور برجست دکھائی دے رہے ہیں۔ بلکہ موردِالزام انجینئر کےبنائے پلوں سے لگاتار ریل گاڑی گزرتی ہے۔ ٹرک، بسیں اور دنیا بھر کی چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ مگر کیا مجال کہ پُلوں کی کارکردگی میں رتی برابر نقص دکھائی دیا ہو۔ کیا سرکار ایسے مضبوط پلوں کو محض اس لئے گرا دے گی کہ پل ایک ایسے انجینئر نے بنائےجس کی ڈگری بقول سرکار بہادر، نقلی یا جعلی تھی؟ کیوں کہ منطقی اصولوں کے تحت ایک فراڈیے شخص کے ہرکام میں لازمی طور پر فراڈ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ جعلی ڈگری رکھنے والے شخص کا ہر کام جعلی ہوتا ہے۔ پچیس برس بعد آپ کو پتہ چلا ہے کہ آ پکے چیف انجینئر کی ڈگری جعلی تھی، تو پھر سرکار فوراً سے پیشتر ان کے بنائے ہوئے پل گرا دیجئے۔ کیا پتہ، جعلی ڈگری کے انکشاف کے بعد پُل شرمساری سے خودبخود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں اور ووٹ دینے والوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو جائیں، اور ووٹ لینے والے اور ووٹ لینے والیاں ووٹوں سے محروم ہو جائیں۔ اور انتخابات کے حتمی نتائج بدل جائیں۔اس حیرت انگیز نوعیت کے دوچار قصہ مجھے یاد آرہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں بھول بھال جائوں، آپ ایک دو قصے سن لیجئے۔یہ اس دور کا قصہ ہے جب ڈائو یونیورسٹی کا نام ڈائو میڈیکل کالج کراچی ہوا کرتا تھا۔ نامور ڈاکٹر اور سرجن کالج سےمنسلک تھے۔ ایک بے انتہا ذہین، قابل اور ماہر سرجن پچھلے پچیس برسوں سے طلبا کو سرجری سکھا رہا تھااور معتبر سرجن پیدا کر رہا تھا۔ اور پھر کچھ ایسے ہوا کہ سرجن کی شہرت، عزت اور احترام سرجن کے آڑے آگئے۔ ان کے اپنے کولیگ ان کیخلاف صف آرا ہوگئے۔ انہوں نے عدالت کو قائل کردیا کہ پروفیسر کی ڈگری جعلی تھی۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد نامور سرجن کے ساتھ جو ہونا تھا ہوا۔مگر عدالت اور کولیگز نے اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ اب اِن سینکڑوں صحت یاب ہونے والے مریضوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ آپریشن کے بعد مکمل طور پر صحتمند ہوجانے والے اعضا کا وہ کیا کریں گے؟ اپنے اعضا پھر سے توڑ پھوڑ دیں گے تاکہ جعلی ڈگری رکھنے والے سرجن کی سند سے چھٹکارا پاسکیں؟ وہ جعلی ڈگری رکھنے والے سرجن کیلئے ان کے غیر معمولی کارناموں کا منہ بولتا ثبوت بننا چاہتے تھے۔سوچتا ہوں، اگر حاکم وقت کسی جج سے پچیس تیس برس بعد ناراض ہو جائے اور جج کے گلے میں جعلی ڈگری کا طوق ڈال دے تو کیا جج کے ہاتھوں موت کا مزہ چکھنے والوں کو حکومت وقت پھر سے زندہ کرکے واپس لاسکے گی؟

تازہ ترین