اسلام آباد کی ہوائوں میں کئی مہینوں کے بعد جب لوٹا تو مایوسی ہوئی کہ ایک اچھے جمہوری نظام کے منتخب لوگ کیوں اپنے ہی پائوں پر کلہاڑیاں مارنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر سیاست اس کا نام ہے کہ لوگوں کو الجھن میں رکھا جائے، ہر ادارے کو اپنے انگوٹھے تلے دبانے کے بعد سارے اپنی مرضی کے کام کئے جائیں تو یہ کوئی سیاست کی اچھی تعریف نہیں ہے۔ مجھے بھی پوری توقع تھی اور امید تھی کہ موجودہ حکمران اتنی قربانیوں اور تگ ودو کے بعد دوبارہ منتخب ہوئے ہیں جلاوطنی بھی کاٹی، جیل بھی دیکھی اور اب وہ سارے سبق سیکھ کر آئے ہوں گے جن کی ضرورت ہے وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے جن کی وجہ سے وہ مصیبتوں کا شکار ہوئے اور ملک کو فوجی آمریت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جب آمریت کمزور ہونے لگی تو NROجیسے سمجھوتے کر کے سیاست دانوں کو میدان میں آنا پڑا۔ وہ سب کچھ ہوگیا، انتخاب بھی ہوگئے اور35 یا 50 پنکچر لگے یا نہیں سب نے نتائج تسلیم کرلئے اور جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ گئی، صوبوں میں بھی جیسے تیسے حکومتیں بن گئیں اور اچھے برے کام شروع ہوگئے، عدلیہ اور فوج بھی اپنی اپنی جگہ بڑے بڑے چیلنج سامنے دیکھ رہی تھی اور مقابلہ ہورہا تھا مگر پھر اچانک کہیں کسی نے ان اداروں کے درمیان دراڑیں ڈالنا شروع کیں اور حکمران اپنے مینڈیٹ کے باوجود ایک خوف کی یا اندرونی کشمکش میں نظر آنے لگے، انہیں جمہوریت کو خطرہ نظر آنے لگا، مشرف کا کیس انہوں نے اس طرح سے اٹھایا جیسے وہ جیت گئے تو ان کی کرسی پکی اور جمہوریت مستحکم۔ دہشت گردی کی جنگ سب کو مل کر لڑنی تھی اور سب ہی قربانیاں دے رہے تھے مگر شایدموجودہ حکمران اپنے برے دن نہ بھول سکے اور مشرف کو ایک مثال بنانے کا ان کا عزم بڑھتا ہی گیا۔ ظاہر ہے مشرف ایک ریٹارئر جنرل ہیں اور یہاں کئی ایسے جنرل صاحبان گھروں میں بیٹھے ہیں یا گھوم پھر رہے ہیں جنہوں نےموجودہ حکمرانوں سمیت اوربے شمار پاکستانیوں کے ساتھ نہایت بدتر سلوک کیا ہوگا کیونکہ جب کوئی شخص طاقت میں ہوتا ہے تو وہ کسی کی نہیں سنتا اور سب کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے لیکن بعد میں میرا تو ذاتی تجربہ ہے وہی اپنے وقت کے فرعون اور عقل کل حضرات اپنے کئے پر شرمندہ ہی نظر آئے اور کئی تو معافیاں بھی مانگ چکے لیکن ان لوگوں کی کسی نے باز پرس نہیں کی اور وہ زندہ رہے تو آرام سے اور اللہ کو پیارے ہوئے تو بھی عزت کے ساتھ۔ اس تناظر میں مشرف کو ایک عبرت کا نشان بنانا سیاست کے لحاظ سے تو ٹھیک ہوسکتا تھا مگر ملک کی صورت حال اور درپیش خطرات اور ترجیحات کے حوالے سے بالکل صحیح نہیں تھا کیونکہ پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج کو نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کے سامنے آکھڑا ہونا پڑا، اب کسی مریض کو3 ماہ اسپتال میں پناہ دینا کوئی بڑا قابل فخر اور پسندیدہ فیصلہ نہیں ہوگا یا ایک سرد جنگ کا جاری رکھنا، جب کہ توجہ پورے طور پر ملکی اور علاقے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر ہونی چاہئے تھی۔ اب جنرل راحیل صاحب تقریباً ہر ہفتے ہی وزیر اعظم سے مل رہے ہیں اور اکثر تنائو کے سائے تلے۔
پھر اسلام آباد آکر یہ بھی احساس ہوا کہ موجودہ حکومت یا تو فوج کو اپنے قابو میں لانے پر فوکس کررہی ہے یا انتہائی جلدی میں بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے پر، لیکن باقی کام زرداری صاحب کے تجربے کی بنیاد پر ہی ہورہے ہیں۔ مثلاً زرداری صاحب عدالتوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے اور اگر کسی عدالت نے ان کے مقرر کئے ہوئے ساتھی کو نوکری یا کسی کرسی سے ہٹادیا تو وہ اس کو ایک بڑی کرسی دے دیتے تھے۔
موجودہ حکمران عدالتوں کے احترام کی بات روز کرتے ہیں، کام وہ بھی ویسے ہی کررہے ہیں، زرداری صاحب نے فخرو بھائی کو الیکشن کا سربراہ بنایا تو یہ بھی ایک بزرگ جج ڈھونڈ لائے اور وہ اتنے کمزور تھے کہ ایک دو اخباری خبروں کے بعد ہی پیچھے ہٹ گئے، اگر رانا بھگوان داس الیکشن کمشنر بن جاتے تو کتنا دبائو اٹھا سکتے۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی چین سے Mous کی لائن لگا دی اور اب دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل بھی چین لگائے گا مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ چین نے سب سے اہم مطالبہ کیا کیا ہے اور وہ اسے کیسے پورا کریں گے یعنی فاٹا اور سرحدی علاقوں میں جو جنگجو جمع ہیں اور یہاں سے چین کے علاقوں میں حملے کر رہے ہیں ان کا مکمل خاتمہ کیا جائے، یہ کوئی آسان بات نہیں اور اگر حکمراں فوج سے ایک تنائو کی سی فضا پیدا کر رہے ہیں تو پھر وہ اپنے منصوبوں پر کیسے عمل کریں گے۔ مجھے حیرت اور افسوس جب ہوا کہ حکومت کے ترجمان اور اس کے وزیر اطلاعات اور قانون یعنی حکومت کی آنکھیں اور کان اور حکومت کا لائوڈ اسپیکر اور قانون کے رکھوالے پرویز رشید صاحب نے مجھ سے الجھتے ہوئے کہا کہ بجائے آپ ہمیں کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کے مشورے دینے کے، اپنی سیاسی پارٹی کیوں نہیں بنالیتے اور سیاست میں کیوں نہیں کود جاتے یعنی اگر میڈیا تنقید کرے تو حکومت کا جواب یہ ہوگا کہ پہلے آکر میرے ساتھ الیکشن لڑو اور پھر بولو۔ الیکشن تو آپ پنکچر لگا کر بھی جیت جاتے ہیں تو چوروں، ڈاکوئوں اور ملک کو لوٹ کر مال باہر لے جانے والوں کو کون پکڑے گا اور اس پر میڈیا آپ سے سوال بھی نہیں کرے، پرویز رشید بڑے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے اچھے ترجمان ہیں مگر مجھے دھچکا لگا جب انہوں نے کئی دوستوں کے سامنے کہا کہ حکومت یا تو دہشت گروں کے خلاف جنگ لڑسکتی ہے یا کرپشن کے خلاف، ہم کرپشن کرنے والوں کو پکڑنا شروع کردیں تو ملک میں رائے عامہ بٹ جائے گی، میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اگر وزیر قانون اور حکومت کی یہ سوچ ہے تو پھر تو ہر سیاست دان اور ہر ادارے کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ حکومت تو ایک اتنا بڑا سائبان ہے جس کے نیچے نہ صرف شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے ادارے ہیں بلکہ ہر قانون شکن کو پکڑنے کا اختیار اور عملہ موجود ہے، تو یہ تو صرف ایک بہانہ ہے کہ چند گمراہ شدت پسندوں سے لڑنے کے بہانے ہر چور ڈاکو چاہے وہ حکومت میں ہو یا سیاست میں یا اس سے باہر، کھلی چھٹی دے دی جائے۔ قصہ مختصر نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں نے اپنے برے دنوں کے باوجود کوئی بڑا سبق نہیں سیکھا اور جب اس وقت ضرورت پہاڑ جیسے مسائل یعنی معیشت، بیروزگاری، لاقانونیت، علاقے کے بدلتے ہوئے حالات، ٹیکس اور دوسرے وسائل کی چوری اور لوٹ مار پر پوری توجہ دینے کی تھی حکومت مشرف کو اتنا بڑا ایشو بناکر پھنس گئی ہے، فوج کو عوامی قیادت کے تابع بالکل ہونا چاہئے مگر عوامی قیادت خالی پنکچروں والے الیکشن سے جیت کر یہ مقام حاصل نہیں کرسکتی اس کو ثابت کرنا ہوگا کہ سول حکمراں ہر طرح فوجی حکمرانوں سے بہتر ہیں اور عوام ان کی کارکردگی سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ وہ فوج کو کبھی بری آنکھ سے دیکھنے بھی نہیں دیں گے۔ ترکی کے اردگان نے دو الیکشن جیتنے کے بعد فوج پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس وقت جب وہ ترکی کی معیشت کو عروج پر لے گئے تھے مگر ان کی مثال پاکستان اور موجودہ حکومت پر کم ازکم اس وقت لاگو نہیں ہوسکتی۔ مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی جب ایک بہت ہی باخبر چک شہزاد کے مکین نے بتایا کہ اردگان صاحب نے خود موجودہ حکمرانوں کو یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ ابھی ہماری تقلید کرنے کی کوشش نہ کریں ابھی پاکستان کی جمہوریت اور معیشت اور حکومتی کارکردگی اس درجہ پر نہیں پہنچی جہاں سیاست دان فوج کے گریبان پکڑ لیں۔ اکثر ملاقاتوں کے بعد میرا تجربہ یہ ہے کہ ابھی فوج کسی بھی موڈ یا پوزیشن میں نہیں کہ وہ جمہوریت کو آنکھیں دکھائے وہ اپنے فرائض سے نمٹنا چاہتے ہیں مگر (اور یہ ایک بڑا IF ہے) ان کو اگر بالکل ہی دیوار سے لگادیا گیا تو ان کے سامنے کیا راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک جنرل صاحب نے کہا کہ موجودہ حکومت کو جنرل جہانگیر کرامت کا تجربہ دوبارہ راحیل کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ کرامت تو استعفیٰ دے کر رخصت ہوگئے تھے مگر پھر فوج نے فیصلہ کیا تھا کہ دوبارہ یہ نہیں ہوگا اور جب مشرف کا وقت آیا تو کرامت کے استعفےکا جواب دیا گیا۔