وطن عزیز میں پولیو ایک بار پھر سے خطرے کی علامت بن کر سامنے آرہا ہے اور بہت تیزی سے پولیو کے کیسوں میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ نیشنل ای او سی کے مطابق وطن عزیز میں تین نئے پولیو کیس سامنے آئے ہیں اور اس رواں برس میں ان کی مجموعی تعداد اکیس تک پہنچ گئی ہے۔ پولیو کے یہ کیس بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا سے سامنے آئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں ایک نو ماہ کی بچی جبکہ بلوچستان کے ضلع قلع عبداللہ میں ڈیڑھ سال کا بچہ اور کراچی کے ضلع کیماڑی میں ساڑھے تین سال کا بچہ پولیو سے متاثر ہوچکا ہے۔ رواں سال میں اب تک اکیس کیس ریکارڈ کیے گئے اور گزشتہ سال ان کیسوں کی تعداد صرف چھ تھی جن میں اب مزید تین کیسوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو واحد ممالک ہیں جہاں موثر ویکسی نیشن کے باوجود پولیو کا مرض اب بھی موجود ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے یونی سیف کے بقول سن انیس سو نوے کے اوائل میں پولیو کے کیسوں کی تعداد بیس ہزار سالانہ کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر کم ہوئی ہے۔ وطن عزیز میں ایک دہائی قبل پولیو کے کیس سامنے آئے تھے بلکہ پندرہ سولہ سال قبل پاکستان میں پولیو کے حملوں پر عالمی دنیا نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انسداد پولیو کے لیے اقدامات میں وطن عزیز کی مدد کے لیے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کئے اور پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کی غرض سے مربوط کوششوں کا آغاز بھی کیا جس کے بعد پاکستان پولیو فری ملک بن گیا تھا ۔اگرچہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بالخصوص شدید مزاحمت کا پولیو ٹیموں کو سامنا اب بھی رہتا ہے اور لوگ پولیو ٹیموں کے علاقے میں آتے ہی اپنے بچوں کو چھپا دیتے ہیں۔ اب دو دہائیوں کے بعد بھی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو صورت حال ویسی ہی ہے جیسی کہ پہلے تھی۔ آج بھی پولیو سے بچائو کی ٹیموں پر قاتلانہ حملے کیے جاتے ہیں اور پولیو کارکنان جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں ان کو بالخصوص نشانہ بنایا جاتا ہے، ان ٹیموں کے ساتھ آنے والے پولیس اہل کاروں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے جوانوں کی جان بھی محفوظ نہیں رہ پاتی۔
مقام شکر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس سامنے آنے پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے سخت نوٹس لیا اور متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور پولیو کوآرڈی نیٹر کو فوری طور پر معطل کرنے کی ہدایت جاری کردی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے سخت نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی تحقیق کا حکم بھی جاری کیا اور ان کا کہنا تھا کہ ضلع مہمند میں ناقص پولیو مہم کے ساتھ دیگر تمام ذمہ داروں کا بھی تعین کیا جائے بلکہ متعلقہ سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ شراکت دار اداروں کے متعلقہ عملے کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے اسی طرح دیگر تمام اضلاع میں بھی پولیو مہم کے معیار کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جائے۔ پولیو مہم کے معیار پر کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا اور اب متعلقہ حکام اپنی اصلاح کریں یا سزا کے لیے تیار ہو جائیں۔ انہوں نے متاثرہ بچی کے علاج اور صوبائی حکومت کی طرف سے کفالت کرنے کا اعلان بھی کیا۔ یہ بھی پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی وزیراعلیٰ نے پولیو کی شکار بچی کی کفالت کا فیصلہ کیا وگرنہ اس سے پہلے ایسی کوئی انہونی نہیں ہوئی جو سامنے آئی ہو، پولیو کے شکار لوگوں سے اظہار ہمدردی نہیں کیا جاتا اور وہ عمر بھر معذوری کو اپنی طاقت نہیں بنا پاتے، زیادہ تر بھیک مانگتے ہیں یا سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ اگر مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں پولیو ٹیموں پر حملوں میں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شعور جو عوام الناس میں پیدا ہونا چاہیے تھا وہ بدقسمتی سے نہیں ہو پایا، دراصل پولیو کی دوا کے حوالے سے خدشات اور افواہیں اس قدر پھیلائی گئی ہیں کہ حقائق بہت دور رہ گئے ہیں۔
وطن عزیز میں کسی نے تحقیق نہیں کی کہ پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے کے مابعد اثرات کیا ہوں گے۔ وطن عزیز میں اول تو تحقیق کا میڈیکل کے شعبے میں کوئی معیار ہے ہی نہیں اور کہیں کوئی تحقیق بھی کی جارہی ہے تو اس کا معیار ایسا ہوگا کہ دنیا اسے تسلیم نہیں کرے گی، یہاں جوہر قابل کی کوئی کمی نہیں لیکن مغرب کا دوہرا معیار یہی رہ گیا ہے کہ کوئی پاکستانی جو امریکہ و یورپ کی کسی لیبارٹری میں تحقیق کرکے کوئی دوا تیار کرے تو وہ اس کے نام سے منظور نہیں کی جاتی کسی ’’نگران‘‘ کے نام سے دنیا میں فروخت کی جاتی ہے۔ باقی پولیو سے بچائو والے قطروں کے بارے خدشات ہوائی اور فضائی ہی ہیں ان کا زمینی حقائق سے دور تک کوئی واسطہ نہیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ علماء کی اس حوالے سے پند و نصائح کا بھی عوام پر اثر نہیں ہورہا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک کئی بچے پولیو کا شکار ہونے سے بچ جاتے اور پولیو ٹیموں پر حملے بھی نہ ہوتے۔ اللّٰہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور حکمرانوں سمیت عوام الناس کو بھی نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔