ناقدین کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کا منشور جارحانہ اور پرتشدد سیاست کے علاوہ ملک کی اساس کو کمزور کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ پی-ٹی-آئی کی ماضی کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کافی ہے کہ عمران خان جمہوریت کے پیچھے چھپ کر پاکستان دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت کشمیر کا سودا، جوہری پروگرام کی بندش، پاکستان کومعاشی طور پرلاغر کرنے کے علاوہ بھارت، اسرائیل اور افغان دہشتگردوں کی مدد سے پاکستان کے تین ٹکڑے کرنا شامل ہیں ۔ تحریک انصاف کی قیادت اپنی طرزگفتار سے اس بات کا عندیہ دیتے رہتے ہیں کہ ان کےدلوں میںاس ریاست کے خلاف کتنی کدورت ہے جس کا اندازہ گزشتہ دنوں اسلام آباد کے جلسہ میں علی امین گنڈاپور کے خطاب سے لگایا جاسکتا ہے اور وقت پڑنے پر فوج کے کندھے پر عدلیہ کی چھتری میں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کی کوششوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔پی ٹی آئی کوتمام اصول آج یاد آگئے جب وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہیں- اس وقت تحریک انصاف کی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے دعوے کہاں تھے جب تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر نیشنل اسمبلی قاسم سوری نے اسپیکر کے منصب کوغیر آئینی طور پر استعمال کرتے ہوئے آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اور عمران خان کے خلاف وزیراعظم کی حیثیت سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد غیرآئینی قرار دے کرمسترد کردی تھی۔آج اس قدر شور شرابہ کیوں؟ جب عمران خان نے اپنے اقتدار کو بچانے اور اسے طول دینے کے لئے ملک کی سلامتی اور استحکام کو داؤ پر لگا دیا تھا اور جنرل فیض حمید کو آرمی چیف مقرر کرکے 2028 تک اقتدار پر قابض رہنے کی سازش کی تھی جس کی ناکامی کی صورت میں عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی ٹکراؤکی شکل میں تبدیل کردی اورملک میں انتشار پھیلانے کے منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز کردیا جس کے نتیجے میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور انہیں اقتدار سے ہی ہاتھ دھونا پڑے۔ یہی وہ مقام تھا جب ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کیا گیا جسے 9مئی کو عملی شکل دی گئی جب انہوں نے جی-ایچ- کیو اور کورکمانڈرہاؤس سمیت حساس تنصیبات پرپاکستان کے دشمنوں کی طرح حملے کئے، فوج کو تقسیم کرنے اور سیاست میں ملوث کرنے کے علاوہ فوج کو دنیا بھرمیں دہشتگرد قرار دلانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر تحریک چلائی گئی۔سپریم کورٹ اصلاحات کے لئے مسودہ کی تیاری کے ابتدائی مرحلے میں ہی تحریک انصاف کی قیادت نے شورشرابہ شروع کردیا کہ حکومت یہ مسودہ اپوزیشن سے خفیہ رکھ کر اپنے مطلب کی قانون سازی کرنا چاہتی ہے لیکن یہ بھول گئے کہ ماضی میں 190 ملین پاؤنڈ غبن سے پہلے کابینہ سے اس انداز سے منظوری لی گئی کابینہ کے اجلاس میں ایک بند لفافہ لہرایا گیا جسے کھولے یا دیکھے اسے کابینہ سے منظور کرا لیا گیا۔ کیا اپنے دور اقتدار میں عمران خان جمہوری آداب و اقدار سے آگاہ نہیں تھے؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ انہوں نےاپنے دور اقتدارمیں کتنے سیاستدانوں کوجھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈالا اورتکبرانہ انداز میں ریاستی طاقت کا اظہار کیا اور جلسوں میں اس بات کا اعلان کرتے رہے کہ ان’’سیاسی مجرموں‘‘ سے جیل کی تمام سہولتیں واپس لے کر ان کو جیلوں میں بھی چین سے نہیں رہنے دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ وزیراعظم کے حکم پر جیلوںمیںبند تمام سیاسی قیدیوں کی کوٹھڑیوں سے ایسی تمام سہولتیں واپس لے لی گئیں جو ان کا قانونی حق تھا ۔قومی پرچم کے بعد قومی ترانے کی بے حرمتی کرانا شاید ان کے منشور میں شامل تھا۔ جرمنی میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاکستان کے قونصل خانے سے قومی پر اتار پھینکا جبکہ اسی انداز میںمحب وطنی کا دعویٰ کرنے والے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جان بوجھ کر افغان ڈپلومیٹس کو اپنے فنکشن میں مدعو کیا اور ان کے ذریعے قومی ترانے کی بے حرمتی کرانے کی جسارت کی جب انہوں نے تقریب میں قومی ترانے کےدوران احتراماً کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ گنڈاپورنے افغان ڈپلومیٹس کی اس حرکت پر پردہ ڈالنے کے لئے مؤقف اختیار کیا تحفظ فراہم کرنے کے لئے مؤقف اختیار کیا کہ افغان حکومت کو پاکستان کے قومی ترانے میں موسیقی پسند نہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ترانے کااحترام کرنا ضروری نہیں سمجھا حالانکہ افغانستان کا قومی ترانہ پاکستان کے قومی ترانے سےکہیں زیادہ موسیقی سے مزین ہے۔صوبائی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے والی پی-ٹی-آئی قیادت ذرا عثمان بزدار کی کارکردگی پر غورکرے جسے گورننس کے لئے گالی تصور کیا جاتا تھا کیونکہ صوبائی حکومت کی گورننس بشریٰ بی بی، ان کے بیٹوں اور قریبی دوست فرح گجرکے ہاتھوں میں تھی جن پر الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کو تقرریوں اور تبادلوں کے علاوہ مختلف محکموں میں بھرتیاں کروانے کے عوض اربوں کمائے جبکہ عثمان بزدارصرف ربر اسٹمپ کے طور پر ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔یہی طرز حکمرانی شاید تحریک انصاف کی پسندیدہ۔