بات چیت: منور راجپوت
مولانا محمّد بشیر فاروق قادری ممتاز عالمِ دین اور ایک روحانی شخصیت ہیں، تاہم اُن کا بنیادی تعارف’’سیلانی ٹرسٹ‘‘ کے بانی سربراہ ہی کا ہے۔اُنھوں نے 1999ء میں اِس ادارے کی بنیاد رکھی اور آج اس کا شمار مُلک کے نمایاں ترین سماجی و فلاحی اداروں میں ہوتا ہے۔
سیلانی ٹرسٹ کے تحت63 مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دی جارہی ہیں، جن سے لاکھوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا محمّد بشیر فاروق قادری کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی ذاتی زندگی، سماجی خدمات اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اِس نشست کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان، ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیے؟
ج: ہمارا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھارتی گجرات کے ایک معروف علاقے، بانٹوا سے ہجرت کرکے شکارپور(سندھ) میں آباد ہوا اور وہیں26 رمضان المبارک 1381 ہجری، 3مارچ 1962ء کو میری پیدائش ہوئی۔1965ء میں پاک، بھارت جنگ ہوئی، تو مَیں محض تین، چار برس کا تھا، مگر مجھے اُس موقعے پر کیے جانے والے بلیک آؤٹ سے متعلق باتیں اب بھی کچھ کچھ یاد ہیں۔بہرحال، مَیں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں مکمل کی۔
اسلامیہ ہائی اسکول، شکارپور سے میٹرک کیا، پھر کراچی آگیا اور عبداللہ ہارون کالج، لیاری سے انٹرمیڈیٹ کیا۔اُن دنوں حاجی محمّد حنیف بلو کی قائم کردہ ایک تنظیم’’ تحریکِ عوامِ اہلسنت‘‘ کراچی میں مذہبی و سماجی طور پر بہت سرگرم تھی، تو مَیں اُس سے وابستہ ہوگیا اور تنظیم کا ناظمِ نشرو اشاعت مقرّر ہوا۔
یاد رہے، حاجی محمّد حنیف بلو، 2006ء میں نشترپارک، کراچی میں منعقدہ عید میلادالنبیﷺ کے جلسے میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔ میری دینی تعلیم کا آغاز 1980ء میں ہوا۔ اِس ضمن میں پہلے تو دو برس تک مولانا مفتی محمّد امین کے پاس اُن کی مسجد میں عالم کا کورس کیا، پھر مُلک کے معروف دینی ادارے، دارالعلوم امجدیہ سے پانچ سال میں درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد عالمِ دین کی سند حاصل کی۔ اِسی دَوران 1982ء میں مولانا الیاس قادری صاحب کی جماعت’’دعوتِ اسلامی‘‘ سے وابستہ ہوگیا اور الحمدللہ یہ وابستگی آج تک برقرار ہے۔
س: آپ ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی معروف ہیں، تو یہ سفر کیسے طے ہوا اور آپ کو کِن کنِ سلاسلِ طریقت میں خلافت حاصل ہے؟
ج: مجھے تاج الشریعہ، علّامہ مفتی محمّد اختر رضا خانؒ(بھارت) نے خلافت عطا فرمائی، جب کہ علّامہ مفتی فیض احمد اویسیؒ (بہاول پور) نے بھی خلافت سے نوازا۔نیز، امامِ اہلسنت، مولانا احمد رضا خانؒ کے صاحب زادے، مفتیٔ اعظم ہند، مولانا مصطفٰی رضا خان قادریؒ سے بھی بذریعۂ وسیلہ خلافت حاصل ہے۔ یعنی مجھے قادریہ اور اویسیہ سلاسل میں خلافت و اجازتِ بیعت ہے، تاہم عموماً اویسی سلسلے ہی میں بیعت کرتا ہوں۔
اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری نسبت خواجہ محکم الدّین سیلانیؒ سے ہے، جو اویسی سلسلے سے تعلق رکھنے والے بزرگ تھے۔ چوں کہ وہ مسلسل سفر میں رہتے تھے، اِس لیے سیرانی یا سیلانی کہلائے۔ہمارے ادارے کا نام بھی اُن ہی کی بابرکت شخصیت سے منسوب ہے۔تصوّف میں اویسی سلسلے کی نسبت حضرت اویس قرنیؒ سے ہے۔
خواجہ محکم الدّین سیلانیؒ کو تین سو سال قبل بانٹوا(بھارت) میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔ اُن کے مزار دو مقامات، بانٹوا اور بہاول پور کے قریب، گوٹھ بخشا میں موجود ہیں۔اِس حوالے سے اُن کے سوانح نگاروں نے بہت تفصیل سے واقعات بیان کیے ہیں، جن کے مطالعے سے حقیقتِ حال واضح ہوجاتی ہے۔
س: سیلانی ٹرسٹ کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی، جب کہ کئی ادارے پہلے ہی سے سماجی خدمات سرانجام دے رہے تھے؟
ج: دیکھیں، صدقہ خیرات اور فاتحہ درود وغیرہ ہم میمنوں کی گُھٹی میں شامل ہے، اِسی لیے وہ اِن کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ مَیں اپنی دُکان سے انفرادی طور پر اور دوستوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ تقریباً پانچ سال یہ سلسلہ جاری رہا کہ پیسے جمع کرتے اور مختلف طریقوں سے نادار وضرورت مندوں کی مدد کردیتے۔ ایک روز ایک دوست نے کہا ’’یوں کب تک اپنی دُکان پر بیٹھ کر یہ کام کرتے رہو گے۔‘‘تو ایک ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا اور یوں 10محرم 1420 ہجری،5 مئی 1999ء کو’’سیلانی ٹرسٹ‘‘ نے باقاعدہ طور پر کام کا آغاز کردیا۔
ہم نے ابتدا میں ایک ایمبولینس لی اور دھوراجی کے علاقے میں’’ سیلانی چوک‘‘ پر لکڑی کا ایک بُوتھ بنا کر اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔جہاں تک دیگر اداروں کی بات ہے، تو ہم کسی سے کوئی مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی آج ایسی کوئی نیّت ہے۔سب ادارے ہمارے ہی ہیں اور ہم سب کی قدر کرتے ہیں۔
ہماری اب ایمبولینس سروس نہیں ہے، کیوں کہ باقی ادارے اِس شعبے میں کافی متحرّک ہیں، تو ہم اب اِس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، البتہ جب کبھی ہمیں کسی شخص کے لیے ایمبولینس کی ضرورت پڑتی ہے، تو ہم بلاجھجک اِن اداروں کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں۔ اِسی طرح باقی معاملات ہیں کہ اگر کوئی شعبہ ہمارے پاس نہیں ہے اور کوئی دوسرا ادارہ اُس شعبے میں کام کرتا ہے، تو ہم اُس سے تعاون میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ہماری سوچ یہی تھی کہ انسانیت کی بھلائی کے لیے ہم جو کچھ کرسکتے ہیں، کرنا چاہیے۔ بس، اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا اور کام پھیلتا گیا اور مسلسل پھیلتا ہی جا رہا ہے۔
س: ادارے کے لیے بنیادی اصول کیا طے کیے گئے؟
ج: ایک تو یہ کہ ہم نے اپنی تمام سرگرمیوں کی بنیاد’’ تقویٰ ‘‘کو بنایا، پھر یہ کہ اُس موقعے پر ہماری زبان سے ایک جملہ نکلا کہ’’ ہم پیدائش سے لے کر موت تک کے سب کام کریں گے‘‘ تو یہ ہمارا ہدف مقرّر ہوگیا۔ نیز، ہم نے اِس ادارے کی نسبت، اللہ کے ایک ولیٔ کامل، خواجہ محکم الدّین سیلانیؒ سے قائم کی اور پھر روضۂ رسولﷺ کا تصوّر کرتے ہوئے کام کا آغاز کیا۔
چوں کہ ہمیں اچھا خاصا تنظیمی تجربہ تو تھا ہی، اِس لیے ادارے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تاکہ ایک تو معاملات صاف و شفّاف رہیں اور دوم، کوئی قانونی رکاوٹ یا پیچیدگی نہ ہونے پائے۔ بعدازاں، ضرورت کے تحت ٹرسٹ کے انتظام و انصرام کے ضمن میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں۔
س: اِس طرح تو آپ کی ذاتی معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہوں گی؟
ج: مَیں نے کئی کاروبار کیے اور میرا آخری کاروبار ایمرجینسی لائٹس کی فروخت، یعنی الیکٹرانکس کا تھا۔ ویسے مَیں ساتویں کلاس ہی سے والد کی دُکان پر بیٹھنے لگا تھا۔ والد کا سیٹھوں کے خاندان سے تعلق تھا اور وہ بھی شکارپور سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔
اُن کا صدر کے علاقے میں ریفریجریٹرز اور ائیر کنڈیشنرز وغیرہ کا شو روم تھا، تو سماجی خدمات میں مصروفیات کی وجہ سے مجھے بہت سے معاشی مسائل تو درپیش آئے، مگر خاندانی پس منظر کے سبب کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ الحمد للہ، ہم پہلے بھی معاشی طور پر خوش حال تھے، اب بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بہت کرم ہے اور اِن شاء اللہ وہ آیندہ بھی کسی کا محتاج نہیں کرے گا۔
س: سیلانی ٹرسٹ نے عوام کا اعتماد کیسے حاصل کیا کہ آج یہ مُلک کا صفِ اوّل کا ادارہ بن چُکا ہے؟
ج: اِس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا بہت شُکر ادا کرتا ہوں اور قرآنِ پاک کا فیصلہ ہے کہ جو اللہ کی نعمتوں کی عزّت یا شُکر کرے گا، اُس کے لیے نعمتیں بڑھا دی جائیں گی۔اگر مجھے کوئی شخص دس روپے بھی دیتا، تو مَیں اُس پر بھی کسی بڑے عطیے کی طرح شُکر ادا کرتا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے دس سے100روپے ہوئے،100بڑھ کر ایک ہزار ہوئے اور پھر یہ تعاون بڑھتے بڑھتے لاکھوں، کروڑوں، بلکہ اربوں روپوں تک پہنچ گیا۔ قوم ہمیں اب تک13ارب روپے سے زاید رقم دے چُکی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا مالیاتی نظام بے حد شفّاف ہے۔
ہم نے ماہرین کی مدد سے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے کہ ایک روپیا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ ہم اِس امر کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ جو رقم جس مَد سے تعلق رکھتی ہو، وہ اُسی میں خرچ ہو۔ مثال کے طور پر زکوٰۃ کی مَد میں ملنے والے عطیات اُنہی مصارف کے تحت خرچ ہوتے ہیں، جو قرآنِ پاک میں مذکور ہیں۔اِس مقصد کے لیے باقاعدہ علمائے کرام کی نگرانی میں الگ سے ایک شعبہ قائم ہے، جو ہر چیک پر اپنی رائے دیتا ہے۔ اِسی طرح انتظامی اخراجات پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے تاکہ عوام کے عطیات اِدھر اُدھر خرچ ہونے کی بجائے سو فی صد درست مقامات ہی پر استعمال ہوسکیں۔
س: آپ ادارے سے کتنی تن خواہ یا کون کون سی سہولتیں حاصل کر رہے ہیں؟
ج: مَیں ادارے سے کسی بھی مَد میں ایک روپیا بھی وصول نہیں کرتا۔ آپ اِس وقت میرے ساتھ جس آفس میں موجود ہیں، اِس کا بجلی اور پینے کے پانی وغیرہ کا بِل تک مَیں اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ مَیں ادارے سے ایک تنکے کا بھی ذاتی فائدہ نہیں اُٹھاتا۔ دیکھیں، مجھے ہمیشہ تو زندہ نہیں رہنا، آخر میرے بعد کوئی تو اِس نشست پر بیٹھے گا، تو اگر مَیں ادارے سے طرح طرح کی سہولتیں لوں گا، تو آنے والے میری پیروی میں جانے کیا، کیا مراعات لیں گے۔
اگر یہ ادارہ صرف میری تشہیر یا مفادات تک محدود رہا، تو یہ میرے مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا، جب کہ میری خواہش ہے کہ یہ قیامت تک اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا رہے، اِس لیے مَیں نے خود کو ناگزیر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ادارے کا33 افراد پر مشتمل ایک باقاعدہ اور منظور شدہ بورڈ ہے، جو اس کے تمام انتظامی اور مالی معاملات دیکھتا ہے۔ یہاں ہر معاملے کو میرٹ پر دیکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر مَیں کسی کام کے سلسلے میں کسی شخص کی کوئی سفارش کروں، تو اُسے قبول کرنے کی بجائے طے شدہ قواعد و ضوابط ہی کی پیروی کی جاتی ہے۔
س: سیلانی ٹرسٹ کِن کِن شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہا ہے؟
ج: میرے پانچ اہداف ہیں۔کوئی بچّہ تعلیم کے بغیر نہ رہے، کوئی مریض علاج معالجے سے محروم نہ رہے، کوئی بے چھت نہ رہے، کوئی بے روزگار نہ رہے اور کوئی بھوکا نہ سوئے، تو اب اِن اہداف کے حصول کے لیے ہم مختلف سمتوں اور شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف دسترخوانوں کا سلسلہ ہے، جہاں صبح سات بجے سے رات دو بجے تک یومیہ تین لاکھ افراد پیٹ کی بھوک مِٹا رہے ہیں، تو دوسری طرف ہم نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
سیلانی ٹرسٹ واحد ادارہ ہے، جو مونٹیسوری سے لے کر سی اے تک کی تعلیم دے رہا ہے۔600نوجوان اسکالرشپس پر سی اے کرچُکے ہیں، ڈیٹا سائنس بھی پڑھائی جا رہی ہے۔ہم نے ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کورسز کروانے کا ہدف مقرّر کیا ہے، جو سالانہ ایک ارب ڈالر کمانے کے قابل ہوں تاکہ مُلک کے معاشی مسائل حل ہوسکیں۔ پچھلے ہفتے رپورٹ آئی کہ پاکستان نے آئی ٹی میں3بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کی ہے اور اِس میں سیلانی کا بہت بڑا شیئر ہے کہ ہمارے پاس سے دو لاکھ نوجوان آئی ٹی کورسز کر چُکے ہیں۔
عارف حبیب نے ہمیں نیا ناظم آباد میں تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کی ساڑھے چھے ہزار گز زمین عطیہ کی ہے، جہاں ہم تعلیمی ادارے سمیت کئی شعبے قائم کر رہے ہیں۔اِسی طرح ہم ہاؤسنگ کے شعبے میں بھی مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن میں ایک پراجیکٹ تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ ہم عوام کو15 سال کی آسان اقساط پر مکانات دے رہے ہیں، جب کہ اپنے عملے کو صرف 12لاکھ روپے میں مکانات دئیے، جس کے لیے اُنھوں نے ماہانہ ساڑھے چھے ہزار روپے قسط ادا کی اور اب اُن مکانات کی مالیت70 لاکھ روپے تک پہنچ چُکی ہے۔نیز، سیلانی ٹرسٹ نے روزگار کی فراہمی کے لیے20 سال قبل’’ جاب بینک‘‘ قائم کیا، جس کے ذریعے ہم مختلف کمپنیز کو چپڑاسی سے لے کر سی ای او تک دے سکتے ہیں۔
س: دسترخوانوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ اِس سے لوگوں کو مفت خور یا کام چور بنایا جا رہا ہے، مفت میں روٹیاں دینے کی بجائے اُنھیں ہنر مند بنا کر روزگار دِلوانا چاہیے؟
ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم صرف دسترخوانوں ہی کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ ہنر اور روزگار کی فراہمی کے ضمن میں بھی بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کبھی کسی دسترخوان پر جاکر وہاں موجود افراد سے اُن کا تعارف حاصل کریں، تو اُن میں سے اکثریت اُن افراد کی ہوگی، جو برسرِ روزگار تو ہیں، مگر اُن کی تن خواہیں بیس، پچیس ہزار کے درمیان ہیں، جس میں بنیادی ضروریات تک پوری نہیں ہوسکتیں۔
منہگائی کی صُورتِ حال سب کے سامنے ہے۔ پچھلے دنوں کے-الیکٹرک کے سی ای او نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ’’ اگر سیلانی جیسے ادارے نہ ہوں، تو لوگ گھروں سے نہ نکل پائیں، کیوں کہ بھوک مرتے لوگ اُن سے چھینا جَھپٹی کرتے۔‘‘دستر خوانوں کے ساتھ ہمارا’’روٹی بینک‘‘کے نام سے بھی ایک کام یاب پراجیکٹ ہے، جس کے ذریعے کم آمدنی والے خاندانوں کو اُن کے گھروں تک کھانا پہنچایا جا رہا ہے۔
س: خواتین ہماری آبادی کا نصف سے بھی زاید ہیں، تو سیلانی ٹرسٹ اُن کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کر رہا ہے؟
ج: ایک تو ہماری عمومی سرگرمیاں ہیں، جن سے خواتین بھی مستفید ہو رہی ہیں، جیسے دسترخوان وغیرہ۔ پھر یہ کہ ہم خواتین کو ہنرمند بنانے اور روزگار کی فراہمی کے لیے بھی کئی طرح سے کام کر رہے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد اور فیصل آباد میں خواتین کو ٹیکسٹائل کے شعبے میں نہ صرف تربیت دے رہے ہیں بلکہ اُنھیں ملازمتیں بھی فراہم کرتے ہیں۔
حیدرآباد میں لکی ٹیکسٹائل ملز کو ایک ہزار خواتین کی ضرورت تھی، جس کے لیے ہم نے خواتین کی تربیت کی اور اُنھیں مل میں ملازمت دِلوائی۔ اِسی طرح اُنھیں آئی ٹی کے کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں۔
س: نشے کے عادی افراد ہمارے معاشرے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں، کیا ان کے علاج معالجے یا بحالی کے لیے بھی آپ نے کوئی شعبہ قائم کیا ہے؟
ج: اینٹی نارکوٹیکس کے زیرِ اہتمام نشے کے عادی زیرِ علاج افراد کے لیے سیلانی ٹرسٹ کھانا بھجواتا ہے، جب کہ شہید نوید اسپتال میں زیرِ علاج ایسے افراد کو ہم نہ صرف کھانا بلکہ ادویہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
نیز، ہم نے اسپتال کے ساتھ ایک ووکیشنل سینٹر بھی قائم کیا ہے، جہاں منشیات کے عادی زیرِ علاج مریضوں کی بیویوں یا اُن کی دیگر رشتے دار خواتین کو مختلف ہنر سِکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر سنبھال سکیں۔
س: کیا سیلانی ٹرسٹ اصلاحِ معاشرہ کے لیے بھی کوئی کام کر رہا ہے؟
ج: جی ہاں، اِس ضمن میں کراچی کے مختلف مقامات پر ہر ہفتے، جمعرات، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو قصیدہ بردہ شریف، ختمِ خواجگان، ختمِ قادریہ اور درودِ پاک کے حوالے سے 26 اجتماعات ہوتے ہیں، جب کہ اِسی طرح کے تین اجتماعات حیدرآباد میں بھی ہوتے ہیں۔
نیز، فیضانِ مصطفیٰ اکیڈمی کے نام سے بھی ہمارا ایک سیٹ اَپ ہے، جس میں27 ہزار بچّے ناظرہ سے درسِ نظامی تک کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پھر درس اور بیانات کا سلسلہ بھی سال بَھر جاری رہتا ہے۔
س: آپ کے کتنے بچّے ہیں اور وہ کیا کیا کر رہے ہیں؟
ج: میرے دو بیٹے ، ایک بیٹی ہےاور تینوں شادی شدہ ہیں۔ ایک بیٹا سیلانی ٹرسٹ میں میرا معاون ہے، لیکن وہ بھی کوئی تن خواہ وغیرہ نہیں لیتا۔ دوسرے بیٹے کا نیوچالی کے علاقے میں اچھا کاروبار ہے۔
س: آپ عمران خان کے خاصے قریب رہے ہیں اور آپ نے پاکستان کے قرضے اُتارنے سے متعلق اُن کی حکومت کو تعاون کی بھی پیش کش کی تھی، وہ کیا معاملہ تھا؟
ج: ہم نے اور’’ اخوّت‘‘ کے ڈاکٹر امجد ثاقب نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر حکومت تعاون کرے، تو ہم انڈس اسپتال انتظامیہ، سیٹیزن فاؤنڈیشن اور ایسے دیگر سماجی و فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر مُلکی قرضوں کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں کہ قوم کو اِن اداروں پر بے حد اعتماد و اعتبار ہے اور وہ ہر سال اربوں روپے اِنہیں دیتے ہیں، مگر اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکّام اِسے اپنی بے عزّتی سمجھ رہے تھے کہ اِس طرح اُن کی اہمیت کم ہوجاتی، اِس لیے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
بہرحال، ہماری یہ پیش کش اب بھی برقرار ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سماجی اداروں کے تعاون سے قرضوں کی ادائی کے معاملے میں اچھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ جہاں تک عمران خان سے تعلقات کی بات ہے، تو لنگر خانوں جیسے مختلف پراجیکٹس کے سلسلے میں اُن سے ملنا ملانا ہوتا تھا۔
مَیں نے اُنھیں مُلک و قوم کے لیے مخلص پایا اور وہ واقعی بہت کچھ کرنا بھی چاہتے تھے۔دیکھیں، ہم انتخابات میں تو حصّہ نہیں لیں گے، مگر ہم غیر سیاسی ہرگز نہیں ہیں، اِسی لیے نیکی و بھلائی کے کاموں کے سلسلے میں تمام سیاست دانوں اور جماعتوں سے ہمارے تعلقات ہیں اور ہم موجودہ حکومت سے بھی رابطے میں ہیں۔
سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت14 اگست کو نیا ناظم آباد میں دو بڑے کاروباری گروپس کے تعاون سے’’ سیلانی اسکول آف ایمرجنگ سائنسز اینڈ اسکلز ایجوکیشن‘‘ کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ سیلانی ویلفیئر کے بانی اور چیئرمین مولانا محمّد بشیر فاروق قادری اور چیئرمین عارف حبیب گروپ، عارف حبیب نے دیگر اہم شخصیات کے ساتھ تختی کی نقاب کشائی کی۔
ادارے کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ’’ یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ ثابت ہوگا کہ اِس کی تکمیل کے بعد یہاں آئی ٹی ماہرین اور مختلف ہنر کے حامل افراد تیار کیے جائیں گے تاکہ انٹرنیشنل مارکیٹ کو پاکستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد مل سکیں۔‘‘
سیّد ابو فیصل، سیلانی ٹرسٹ کے بورڈ ممبر اور شعبۂ صحت و ماحولیات کے سربراہ ہیں۔ مولانا محمّد بشیر فاروق قادری سے بات چیت کے دَوران وہ بھی موجود تھے۔ اِس موقعے پر اُنھوں نے بتایا کہ’’ سیلانی ٹرسٹ کے تحت گوادر سے طورخم تک تقریباً ساڑھے چار سو آر او پلانٹس لگائے گئے ہیں، جن سے عوام کو یومیہ ساڑھے تین کروڑ گلاس صاف پانی مفت مل رہا ہے۔ہم ٹرسٹ کے پورے نظام کو سولر سسٹم پر منتقل کر رہے ہیں تاکہ اخراجات کی بچت کے ساتھ، ماحول میں بھی بہتری آسکے۔
نیز، اگلے سال جنوری تک یومیہ دس لاکھ افراد کو کھانا فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور اِس مقصد کے لیے’’ اسٹیٹ آف دی آرٹ کچن‘‘ قائم کیا جارہا ہے، جو اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے بڑا کچن ہوگا۔ اس کچن میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت چولھا نہیں جلے گا بلکہ سارا کام اسٹیم پر ہوگا۔ہم جانوروں کی آلائشوں وغیرہ سے بائیو گیس بنائیں گے اور اُسی سے جنریٹر بھی چلا ئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں، ایک معیاری مائیکرو بائیولوجیکل لیب اور ایک کیمیکل لیب بھی بنا رہے ہیں تاکہ عوام کو ہر لحاظ سے صحت بخش کھانا مہیّا کیا جاسکے۔‘‘
اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ سیلانی ٹرسٹ کے تحت ہر ماہ تھلیسمیا کے شکار 600بچّوں کو خون کا عطیہ بھی دیا جاتا ہے۔‘‘تعلیمی خدمات کے ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ہم آئی بی اے، کراچی کے ساتھ مل کر ایسے کورسز ڈیزائن کر رہے ہیں، جن کی اِس وقت مارکیٹ میں بہت زیادہ مانگ اور ضرورت ہے۔ ہم اِن کورسز کے لیے ضرورت مند، لیکن قابل نوجوانوں کو اسکالرشپ دیں گے تاکہ وہ پوری یک سوئی کے ساتھ تعلیمی مراحل طے کرسکیں۔
دو دن قبل ایک 23 سالہ نوجوان نے، جس نے ہمارے ہاں سے دو سال قبل آئی ٹی کی تربیت لی تھی، ایک کروڑ روپے کی گاڑی خریدی ہے، جس پر اُس کی خوشی دیدنی تھی، حالاں کہ اُس کا والد ایک جگہ 25 ہزار پر ملازم تھا۔ گویا،’’ سیلانی ٹرسٹ‘‘ خاندانوں کی ڈیویلپمنٹ پر کام کر رہا ہے۔‘‘
سیلانی ٹرسٹ کے بہادر آباد، کراچی میں واقع مرکزی دفتر میں داخل ہوئے، تو ایک جانب’’ جاب بینک‘‘ کی طرف جانے والے راستے کی نشان دہی کا بورڈ آویزاں تھا۔ تجسس ہوا کہ یہ کس نوعیت کا بینک ہے؟ سو، اُس طرف چل پڑے۔ وہاں ہماری ملاقات شعبے کے سربراہ، علّامہ شارق احمد کاشفی سے ہوئی، جو پوری توجّہ سے اپنے کام میں مصروف تھے۔
اُنھوں نے نہ صرف نہایت خوش اخلاقی سے خوش آمدید کہا بلکہ تمام سوالات کے جوابات دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دئیے، تاکہ باتیں محض دعووں تک محدود نہ سمجھی جائے۔ جاب بینک سے متعلق اُنھوں نے بتایا کہ’’ یہ سیلانی ٹرسٹ کا20سال پرانا ایک ایسا شعبہ ہے، جو عوام کی بہت سی تنقیدوں کا عملی جواب بھی ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہم صرف لوگوں کو مفت کھانا دے کر اُن کی عادت خراب کر رہے ہیں، تو ہمارے تعلیمی منصوبوں کے ساتھ، جاب بینک بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سیلانی ٹرسٹ نہ صرف بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے، بلکہ اُنھیں اپنی روزی روٹی باعزّت طریقے سے کمانے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔
جس شخص کو روزگار کی تلاش ہو یا پھر وہ اپنی تعلیم اور مہارت کی بنیاد پر مزید بہتر ملازمت حاصل کرنے کا خواہش مند ہو، وہ ہم سے پورے اعتماد کے ساتھ رجوع کرسکتا ہے۔‘‘ اِس سوال پر کہ ایسے افراد سیلانی ٹرسٹ سے کیسے رابطہ کرسکتے ہیں، اُنھوں نے بتایا۔’’ بہت آسان طریقہ ہے۔ خواہش مند افراد اپنے قومی شناختی کارڈ، تعلیمی اسناد یا مہارت کے سرٹیفیکیٹس کے ساتھ ہمارے دفتر آ جائیں۔ اس کے علاوہ ہم’’ اسمارٹ جاب فیئر‘‘ کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
رواں برس کراچی میں اِس طرح کی چھے نمائشوں کا انعقاد کرچُکے ہیں، جن میں ہزاروں افراد نے ملازمت کے لیے ہم سے رجوع کیا اور وہاں مختلف کمپنیز کے نمایندوں نے اُن کے انٹرویوز کرکے اُنھیں ملازمتیں بھی فراہم کیں۔ ہمارا ایچ آر کا شعبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر افراد پر مشتمل ہے، جہاں درخواست گزاروں کا تفصیلی انٹرویو کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی اہلیت و صلاحیت کا پوری طرح اندازہ لگایا جاسکے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کی خواہش تو کسی اور کام کی ہوتی ہے، مگر وہ کسی دوسرے شعبے کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے، تو ہم اِس ضمن میں بھی اُن کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
ہم نے خود بھی دیکھا کہ دفتر میں بہت سے ملازمت کے متلاشی افراد موجود تھے، جن کے انٹرویوز کیے جا رہے تھے۔ ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کی کہ آنے والوں کی عزّتِ نفس کا پوری طرح خیال رکھا جا رہا تھا۔ماحول بہت شان دار، صاف ستھرا اور پُرسکون تھا۔ علّامہ شارق احمد نے ایک سوال پر بتایا کہ’’ ہم سے بہت سی کمپنیز رابطہ کرتی ہیں، جنھیں ہم ضرورت کے مطابق ملازمین فراہم کرتے ہیں اور اِس کام کے لیے کسی سے ایک روپیا بھی وصول نہیں کیا جاتا، بلکہ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن افراد کو ملازمت پر لگوایا جاتا ہے، اُن کی سیلری ملنے تک گھر کے اخراجات چلانے کے لیے مدد بھی کی جاتی ہے۔
’’ سیلانی جاب بینک‘‘ کے ذریعے اب تک ہزاروں افراد باعزّت روزگار حاصل کرچکے ہیں، جن میں صرف متوسّط درجے کی سمجھی جانے والی ملازمتیں ہی شامل نہیں، ہمارے ذریعے متعدّد اعلیٰ عُہدوں کی اسامیاں بھی پُر کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں ہم کمپنیز سے رابطے میں رہتے ہیں اور باقاعدہ فیڈ بیک بھی لیتے ہیں اور روزگار کی فراہمی کا یہ کام پورا سال ہی جاری رہتا ہے۔‘‘