قارئین !بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دانستہ طور پر مخصوص ایجنڈے کے تحت پروان چڑھائی جانیوالی منافرت کی سیاست نے باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو ہی بے توقیر نہیں کیا بلکہ منافرت کی اس سیاست کے منفی اثرات ریاستی انتظامی اداروں کے اندر تک بھی محسوس ہورہےہیں اور اس صورتحال میں اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ کا ممکنہ طور پر آغاز ہوگا تو مہذب انسانی معاشرے والے تصورات بھی ماند پڑنا شروع ہو جائیں گے‘ نتیجتاً ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ والے معاشرے کا تصور ہماری ساری اقدار ملیامیٹ کر دےگا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ نے بعض نجی کمپنیوں کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئینی حدود کے تابع ہے۔ فاضل جج نے یہ استفسار بھی کیا کہ مستقبل میں کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے۔ ان سطور میں ہم اسی فکرمندی کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ریاستی انتظامی اداروں کو اپنی اپنی متعینہ آئینی حدود کے اندر ہی فرائض منصبی ادا کرنے چاہئیں اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ ماضی میں ایسی مہم جوئیوں کا انجام ہم ماورائے آئین اقدامات کی صورت میں بھگت چکے ہیں اس لئے ہمیں ماضی کے تلخ تجربات سے اب تو سبق حاصل کرلینا چاہیے۔ آئین میں تو بلا شک وشبہ ہر ریاستی انتظامی ادارے کے اختیارات اور دائرہ کار متعین ہے اس لئے اداروں کے مابین اختیارات کی کشمکش یا کوئی تنازع پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اسکے برعکس افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہو رہی ہے کہ بڑھتی سیاسی منافرت کی فضا ہمارے آئینی ریاستی انتظامی اداروں میں بھی اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہی ہے چنانچہ ان اداروں کے اقدامات اور فیصلوں میں بھی اپنے اپنے ممدوحین کے سیاسی ایجنڈے کی جھلک واضح طور پر نظر آنے لگی ہے۔ ایسی غیریقینی اور قیاس کی فضا لازمی طور پر ملک کی معیشت و معاشرت کو بھی متاثر کرتی ہے اور سیاسی اقتصادی استحکام کی منزل بھی راستے سے ہٹتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس فضا میں عوام آج اپنے مستقبل کے علاوہ سسٹم اور ملک کے مستقبل سے بھی مایوس ہوتے نظر آتے ہیں جنہیں روٹی روزگار اور روزافزوں مہنگائی کے مسائل نے پہلے ہی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
دوسری جانب خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریت رائے سے فیصلہ صادر کرنے والے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے8 فاضل ججوں کی جانب سے گزشتہ روز اس کیس کا مفصل فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ 70صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے سوا دوسری جماعتوں میں تقسیم کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے اور اس حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیکر باور کرایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے جبکہ الیکشن کمیشن انتخابات 2024ء میں اپنا شفاف کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔8 فاضل ججوں نے اس کیس کا مختصر فیصلہ 12جولائی 2024ء کو سنایا تھا جس کے خلاف حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں جو مفصّل فیصلہ صادر نہ ہونے کے باعث اب تک زیرسماعت نہیں آ سکی تھیں جبکہ اسی دوران پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ موثر بہ ماضی قانون وضع کردیا کہ جو آزاد رکن الیکشن ایکٹ کی متعلقہ شق کے تحت ایک بار کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائے وہ کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہو سکتا۔ اکثریتی فیصلہ میں فاضل عدالت عظمیٰ نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونیوالے آزاد ارکان کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ 2ہفتے کے اندر اندر پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں۔ آئینی اور قانونی حلقے عدالت عظمیٰ کے ان احکام کو الیکشن ایکٹ اور آئین کی متعلقہ دفعات سے تجاوز کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر آئینی ریاستی اداروں پارلیمنٹ‘ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے مابین کھچائواور اختیارات کی کشمکش سنگین صورتحال اختیار کرتی نظر آرہی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کے برادر ججز میں بھی کشیدگی کی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ کو مکمل ناکارہ بنا دیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن بھی ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے۔ اس ادارہ جاتی کشیدگی کے منفی اثرات پورے سسٹم کو نقصان پہنچانے پر منتج ہو سکتے ہیں اس لئے ادارہ جاتی سربراہوں کو آئینی تقاضوں کے مطابق اور عقلمندی کے ساتھ معاملہ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ماضی کی طرح جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کی نوبت نہ آ سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی معاشرہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف و میرٹ کی عملداری کی بنیاد پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے ہی باہم دست و گریباں نظر آئینگے اور منافرت کی سیاست میں ملکی اور قومی مفادات کی بھی پروا نہیں کی جائیگی تو یہاں مہذب معاشرے والی اقدار کہاں پنپ پائیں گی۔ اس حوالے سے یہ لمحہ ہماری قومی سیاسی، دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں سے سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے۔ آج ہمیں بطور معاشرہ اور بطور ترقی پذیر ملک جن اندرونی و بیرونی گھمبیر چیلنجوں کا سامنا ہے، ان سے عہدہ برا ہونے کیلئے تو ادارہ جاتی اور قومی سیاسی قیادتوں کی سطح پر معاملہ فہمی کی زیادہ ضرورت ہے چہ جائیکہ باہمی ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے ملک کی معیشت و معاشرت کو ترقی معکوس کی جانب دھکیل دیا جائے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اور گھات میں بیٹھے ملک کے بدخواہوں کو ملک کی ترقی و سلامتی کیخلاف انکے سازشی منصوبوں کی تکمیل کا موقع مت فراہم کیجئے ورنہ ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچے گا۔