دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت تاریخ کے ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں نے ملک کی اقلیتوں کو خطرے میں ڈالنے، اسکے پڑوسیوں کی مخالفت کرنے، اور اسکی عالمی حیثیت کو نقصان پہنچاتے ہوئے، ایک خطرناک راستہ اختیار کیا ہے۔مودی کی حکومت نے فرقہ وارانہ تشدد کے شعلوں کو بھڑکاتے ہوئے منظم طریقے سے مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو پسماندہ کر دیا ہے۔ منی پور اور ہریانہ میں حالیہ جھڑپیں بگڑتی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم کی افسوسناک مثال ہیں۔ مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، مسلمانوں کے کاروباری اداروں پر حملہ کیا گیا، اور افراد پر وحشیانہ تشددکیا گیا۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں میں خوف اور غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ ان پالیسیوں کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا انہیں دوسرے درجے کے شہریوں میں شامل کرنا ہے۔ دیگر اقلیتوں بالخصوص سکھوں کو بھی منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، انکی زمینیں چھینی جا رہی ہیں اور انکا مذہبی تشخص سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ جو بھی سکھوں کے حقوق کیلئے بیرون ملک آواز بلند کرتا ہے اسے مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ جارہا ہے۔اس لیے بیرون ممالک میں بھی اس حوالے سے تشویش پائی جا رہی ہے۔ انہی معاملات کے تناظر میں پڑوسی ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ کشمیر کا تنازع ایک سیاہ باب ہے، جبکہ چین اور نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات نے کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ ہندوستان کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر سری لنکا، بنگلہ دیش،میانمار اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ ممالک بتدریج چین کے قریب آتے جارہے ہیں۔ لداخ کی وادی گالوان میں چین کے ساتھ 2020 کی سرحدی جھڑپ کے نتیجے میں بھارت کا بہت سا علاقہ چین کے قبضے میں چلا گیا اور بھارت کا جانی نقصان بھی ہوا ۔ نیپال نے بھارت پر علاقائی تجاوزات کا الزام لگایا ہے۔ اب امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی بھارت کے انسانی حقوق کے معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے ۔ اقوام متحدہ نےبھی کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی ہے۔ روس بھی احتیاط سے چل رہا ہے، اپنی توانائی کی برآمدات کو امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے ساتھ متوازن بنا رہا ہے اور یورپی ممالک میںبھی قدرتی گیس کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کی کشیدگی کے معاشی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تجارت میں کمی آئی ہے، بنگلہ دیش اور نیپال اپنے اقتصادی تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں، اور سری لنکا بھارتی سرمایہ کاری سے محتاط ہے۔ رواں برس مالدیپ میں جو الیکشن ہوئے تھے وہ ’’انڈیا آؤٹ‘‘ کے سلوگن سے جیتے گئے اور انکے وزیر اعظم نے بھارتی فوجی دستہ نکال دیا ۔یعنی وہ بھی چائنہ کے زیادہ قریب ہیں اور بھارت سے دور ہو گئے ہیں جو ماضی میں بڑے قریب تھے۔ بنگلہ دیش کی بات کی جائے تو حسینہ واجد کی حکومت جس ہزیمت کے ساتھ گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد اب ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں جو نئی حکومت ہے وہ پرو پاکستان ہے اور مستقبل میں انتخابات کے بعد آنے والی جماعتیں بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گی لیکن چونکہ بھارت کے ساتھ تجارت بھی ہے، دریاؤں کا پانی بھی ہے، بجلی بھی لیتے ہیں تو اس لیے وہ کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے لیکن انکے عوام دل سے یہی چاہتے ہیں کہ بھارت کا تسلط ختم ہونا چاہیے۔بھارت کے خطے میں سلامتی اور اقتصادی مفادات ہیں۔ امریکہ اور روس بھارت کے دوہرے کھیل کو سمجھ رہے ہیں، آئی ٹی، ہیلتھ کیئر ایکسپورٹ اور افرادی قوت کیلئے بھارت کا رخ امریکہ کی طرف ہے اور سستے تیل اور گیس کی درآمدکیلئے وہ روس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت روس کے ساتھ بھی بہترین تعلقات بنائے ہوئے ہے۔ امریکی اعتراض کے باوجود بھارت وہاں سے اسلحہ بھی لیتا ہے ،آئل اور گیس بھی۔ وہ دونوں طرف کھیل رہا ہے اور مودی سرکار کی مکاری کا اندازہ لگائیں کہ حال ہی میں گولہ بارود جو یوکرین میں استعمال ہوا پتہ چلا ہے کہ بھارت سے گیا ہے جس پر روس بھارت سے کچھ ناراض بھی ہے ۔ بھارت کی مکاری یہی ہے کہ ایک طرف روس کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری طرف یوکرین جس کے ساتھ روس کی جنگ جاری ہے اس کو بھی اسی نے اسلحہ بارود ایک تھرڈ پارٹی کے ذریعے فروخت کیا ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے اور بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ خطے میں تھانیدار بننے کا جنون اب مزید نہیں چل سکتا۔ اگر بھارت خطے میں اپنی جمہوری ساکھ اور علاقائی حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اقلیتوں کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے، انکے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعمیری بات چیت کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی وابستگی کا اعادہ کرنا چاہیے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار کے طور پربھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبولیت کے اصولوں کی پاسداری کرے۔ اس کا اور خطے کا مستقبل اس پر منحصر ہےکہ بھارت کا اختیار کردہ راستہ خود پر غور اور اصلاح کا متقاضی ہے۔ مودی سرکار کو جامع طرز حکمرانی، بات چیت اور تعاون کو ترجیح دینی چاہیے۔ کیونکہ اب بھارت کا نام نہاد جمہوری چہرہ بری طرح سے بے نقاب ہو رہا ہے، اس کے پڑوسی تیزی سے محتاط ہو رہے ہیںاور اس کی عالمی حیثیت ایک سوال بن رہی ہے۔ اس رجحان کو بدلنے کیلئے بھارت کو ایک مختلف راستے کا انتخاب کرنا ہو گا جس میں بات چیت اور تعاون کو ترجیح دی جائے۔ تب ہی بھارت حقیقی جمہوریت کہلانے اور علاقائی معاملات میں صحیح طور پر اپنا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔
(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)