• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگ کسی بھی موسم میں صرف اپنی باتوں سے آرزؤں کا جہان آبادرکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ حقائق پسند ہوتے ہیں اور حقائق سے آراستہ باتیں ہی کرتے ہیں۔ کچھ ملمع کاری سے بھی کام لیتے ہیں ۔

ایک وکیل صاحب جج صاحب کو متاثر کررہے تھے تاکہ جج صاحب کی طبیعت کی نرمی سے کام لیا جاسکے، وکیل صاحب فرما رہے تھے جج صاحب بڑے نیک اور ایماندار ہیں پاس کھڑے دوسرے وکیل صاحب گویا ہوئے جی بالکل آپ نے درست فرمایا ہم جج صاحب کی ایمانداری کے گواہ ہیں ہمارے سامنے ہی تو جج صاحب ایماندار ہوئے ہیں۔

قارئین کرام ۔جج صاحب کے ایماندار ہونے کی اس بات کو معروف شاعر جناب ظفر اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے تاہم اس کی تصدیق میں گنجائش رکھتے ہیں ۔ایک وکیل صاحب جج صاحب سے اپنے کیس میں کچھ رعایت چاہتے تھے،انہوں نے اپنا کیس پیش کیا جج صاحب فائل دیکھنے لگے تو ساتھ ہی وکیل صاحب نے کہا ،سنا ہے جناب کی پروموشن ہوگئی ہے جج صاحب بھی اپنی ترقی کے منتظر تھے وکیل صاحب کے منہ سے اپنی ترقی کی بات سنتے ہی فوری وکیل صاحب کا کیس انکی منشا کے مطابق نپٹاتے ہوئے اپنی ترقی کی کنفرمیشن کیلئے ادھر ادھر سے دریافت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ایک وکیل صاحب کو اپنے سائل کی ضمانت چاہئے تھی موصوف نے عدالت کے ایک کونے میں بیٹھی بڑھیا، جو اپنے کسی دوسرے کام سے آئی تھی ،کی طرف اشارہ کرکے جج صاحب کی توجہ دلاتے ہوئے کہا جناب وہ بڑھیا دیکھئے کتنی لاغر اور ضعیف ہے اس نے کبھی جوانی میں گھر سے قدم باہر نہیں رکھا اور آج جب ٹھیک سے کہیں آنے جانے کے قابل بھی نہیںاپنے بچے کیلئے فریاد لے کر جناب کی عدالت میں آگئی ہے کہ جناب اسکی دادرسی فرمائیں گے ،جج صاحب نے وکیل صاحب کی بات سنتےہی بڑھیا کی ضعیف العمری اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے وکیل صاحب کو اسکے سائل کی ضمانت دیدی ۔

وکیل صاحبان تو رہے ایک طرف ،وکلاء صاحبان کےمنشی اتنے قابل ہوتے ہیں کہ کیا کہئے۔ ہمارے جج صاحب عزیز دوست جناب اعجاز احمدبٹر مرحوم سیشن جج ریٹائرڈ حق مغفرت فرمائے انکی عدالت میں ایک ایسا کیس آگیا جسکے ملزم کی طرف سے جو وکیل صاحب تھے وہی وکیل صاحب مدعیوں کی طرف سے بھی تھے جج صاحب نے فائلیں دیکھ کر متعلقہ وکیل صاحب سے بات کی کہ جناب وکیل صاحب دونوں طرف سے میدان میں ہیں؟ تو عقدہ یہ کھلا کہ یہ کارنامہ انکے منشی کا ہے۔وکلاء صاحبان سے معذرت کا خواستگار ہوں کہ انکے پیشے کے حوالے دینے پڑے لیکن ایسے استاد لوگ تو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پائے جاتے ہیں ۔پنجابی زبان کی شاعری اور موسیقی کا بڑا نام منظور حسین (جھلا) سے کسی نے پوچھا کہ’ جھلا‘ آپ کا تخلص ہے کیا ہے؟تو منظور جھلا نے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی سے اظہار تمنا کر دیا تو سامنے والے نے کہا :جااو جھلیا: تو اس کے بعد انہوں نے جھلا۔اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔

بات سے بات نکلی ہے تو اجمل نیازی یاد آگئے حق مغفرت فرمائے ان سے تقریباً پچیس سالہ رفاقت رہی بڑے یار اور دلدار آدمی تھے انکی اہلیہ باجی رفعت بڑی مہمان نواز ہیں ایک تقریب میں کہا گیا کہ ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو اجمل نیازی نے کہادرست ہے ایک کامیاب شخص کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ایک ناکام شخص کے پیچھے بہت سی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ہم کچھ دوست سرحدی دیہات کی سیر کو نکلے واپسی پر سرحد کے قریب ایک قصبہ میں رکے میں اس قصبے کا نام دانستہ نہیں لکھتا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو یہ تاریخی قصبہ ہے اور اسکا ۔پگا۔ (ایک مٹھائی کا نام ہے) بڑا مشہور ہے لوگ دور دراز سے اس قصبے سے (پگا) لینے آتے ہیں حتیٰ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں تک اس مٹھائی کی ڈیمانڈ ہے اس قصبہ کے لوگ باتوں کے بڑے ماہر ہیں خود اس قصبہ کے ہمارے ایک جاننے والے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ہمیں چائے کی طلب ہوئی ایک سبزی فروش سے جا ملے دعا سلام کے بعد بتایا کہ ہم سیر کو آئے ہیں وہ بڑا خوش ہوا اور ہمارے چھوٹے سے قافلے میں شامل دوستوں سے اظہار محبت بھی کیا ہم نے اپنی بات بیان کی جناب ہمیں صرف یہ بتائیے کہ یہاں اچھی چائے کہاں سے ملتی ہے سبزی فروش جو بڑی عقیدت کا اظہار کررہا تھا کوئی دقیقہ فروگزاشت کئے بغیر بولا یہاں کہیں سے بھی اچھی چائے نہیں ملتی البتہ یہاں سے چند کلو میٹر واپسی کی طرف فلاں قصبے کی چائے بڑی اچھی ہے وہاں جا کر کسی بھی دکان سے چائے پیجئے آپ جھوم جائیں گے ہم اس قصبے میں پہنچے اور چائے منگوائی پہلا گھونٹ لیا پر چائے حلق سے آگے نہ جا سکی اس قدر بد مزہ چائے کہ کیا کہئے، ہم نے وہاں ایک صاحب سے پوچھا جناب یہاں اچھی چائے کہاں سے ملتی ہے اس نے بتایا جناب جو قصبہ آپ پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہاں کی چائے بڑی مشہور ہے ہم یہاں سے اکثر وہاں چائے پینے جاتے ہیں ہمیں وہ سبزی فروش یاد آگیا جس نے اپنے قصبے کی اچھی چائے سے صرف اس لئے محروم رکھا کہ کہیں مروت میں چائے اسے نہ پلانی پڑجائے ۔

قارئین محترم!یہ باتیں تو تھیں کچھ یار اور فنکار لوگوں کی لیکن وزیر اعظم شہباز شریف نےاقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین، کشمیر، لبنان پر جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے وہ لائق تحسین ہے جیسے ہی جناب شہباز شریف اپنی تقریر ختم کر کے نشست پر پہنچے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کے لیے پوڈیم پر آئے تو وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستانی وفد نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔اس واک آؤٹ نے دنیا کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔

تازہ ترین