گزشتہ دنوں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور ریونیو ،جس کا میں ممبر ہوں، کو ملکی معیشت پر پارلیمنٹ ہائوس میں ایک اہم پریزنٹیشن دی جس میں مستقبل میں معیشت میں بہتری کی توقعات ظاہر کی گئیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نوید قمر کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں وزارت خزانہ کے ڈائریکٹر جنرل Debt مینجمنٹ محسن چندنہ نے بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان پر واجب الادا قرضوں پر ایک پریزنٹیشن دی اور اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان کو آئندہ 4سال کے دوران 100 ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو یقیناً ہم سب کیلئے تشویشناک بات ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ملکی قرضے جو 2023 میں جی ڈی پی کا 75فیصد تھے، 2024ء میں کم ہوکر 67فیصد پر آگئے ہیں، کرنٹ اکائونٹ، افراط زر اور تجارتی خسارے میں کمی آئی ہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 10.5ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 278 روپے پر مستحکم ہے ۔ افراط زر میں حیرت انگیز کمی ہوئی ہے جو 27فیصد سے کم ہوکر 12فیصد اور اب سنگل ڈیجیٹ 9.6فیصد کی سطح پر آگیا ہے جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی ریٹ میں 2فیصد کمی کی ہے جو 19.5فیصد سے کم ہوکر 17.5 فیصد کی سطح پر آگیا ہے جس کے باعث بینکوں کے لینڈنگ ریٹ اور صنعتوں کی مالی لاگت میں کمی آئے گی جو ملک میں نئی سرمایہ کاری راغب کرے گی۔ قارئین! ہمارے آدھے سے زیادہ ریونیو سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں، شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں میں کمی آئے گی ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو خوش آئند ہے۔ بیرونی قرضے جو 2023ءمیں 84ارب ڈالر تھے، 2024 ءمیں بڑھکر 87ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کے قرضوں کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے 46فیصد Multilateral اور 21فیصد Bilatral قرضے ہیں، باقی قرضوں میں پیرس کلب، کمرشل لون، سیف ڈپازٹس، ٹائم ڈپازٹس، آئی ایم ایف اور یورو بانڈز شامل ہیں۔ پاکستان نے اب تک 6.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز جاری کئے ہیں جن پر کم از کم 6 فیصد سے لیکر 8.7فیصد تک منافع دیا جارہا ہے اور ان یورو بانڈز کی ادائیگی 30ستمبر 2025 ءسے شروع ہوکر 8اپریل 2051تک ہے۔ آئندہ 3سال میں حکومت کو 30 ستمبر 2025 کو 500ملین ڈالر، 8اپریل 2026کو 1.3 ارب ڈالر اور 5دسمبر 2027کو 1.5ارب ڈالر یورو بانڈز کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ سرمایہ کاری عالمی کیپٹل مارکیٹ سے لی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے دوست ممالک کے سیف ڈپازٹس کو سالانہ بنیاد پر 3سال کیلئے رول اوور کرالیا ہے جن میں چین کے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب کے 5 ارب ڈالر، یو اے ای کے 3 ارب ڈالر اور کویت کے 700ملین ڈالر کے سیف ڈپازٹس شامل ہیں ۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے قرضے ملنے کے باوجود حکومت کو 2024ءسے 2026ءتک 5ارب ڈالر کے فنانسنگ گیپ کا سامنا ہے ۔ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاکستان کو آنیوالے 4سال میں تقریباً 100 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو ہمارے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر سے 10گنا زیادہ ہیں۔ میرے اور کمیٹی کے دیگر ممبران نفیسہ شاہ اور حنا ربانی کھر کے اس سوال پر کہ کیا حکومت نے ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے کوئی حکمت عملی بنائی ہے؟وزیر مملکت نے بتایا کہ ہمیں فی الحال پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے ہوں گے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی میں بزنس مینوں سے ایک تفصیلی ملاقات کی جس میں انہوں نے صنعتکاروں کو بجلی کے ٹیرف کو 15 سینٹ سے کم کرکے 9سینٹ تک لانے، مزید مستحکم روپیہ، بینکوں کے سنگل ڈیجیٹ شرح سود، اسمگلنگ کی روک تھام، CPEC اور SIFC کے کلیدی کردار جیسے اہم معاملات پر یقین دہانی کرائی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات نے صنعتکاروں اور بزنس مینوں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے لیکن معاشی ترقی کیلئے ملک میں پائی جانے والی بے یقینی کی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہوگا۔ آرمی چیف نے اپنے دورہ کراچی میں آئی ٹی پارک کا افتتاح بھی کیا اور کہا کہ قوم کو پاکستان کے روشن مستقبل پر مکمل اعتماد اور یقین ہونا چاہئے۔ میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور اُن کی ٹیم کو آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کی منظوری اور 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے پر مبارکباد اور دوست ممالک چین، سعودی عرب اور یو اے ای کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے IMF پروگرام میں پاکستان کی مدد کی۔