بنتِ صدیقی کاندھلوی
آئے روز رُونما ہونے والے واقعات، حادثات اور سانحات کے تناظر میں جب ماضی کے اوراق پلٹے جاتے ہیں، تو ذہن کے دبیز پردے کے پیچھے، کسی نہاں خانے میں پنہاں کچھ یادیں دل ودماغ کو تازگی اور رُوح کو فرحت بھی بخشتی ہیں۔ عہدِ طفولیت کا ایک ٹھنڈک بھرا احساس رُوح کو معطّر ، شاداں و فرحان کر دیتا ہے۔
شخصیت کی تعمیر میں، والدین کا سایۂ عاطفت، بزرگوں کا دستِ شفقت ، نور سے معمور ، محبت و خلوص سے پُر ماحول نیز، والدین کی نظرِ التفات، کردار سازی کے ساتھ فکر و تدبّر کی پُختگی یوں دل و دماغ میں جلوہ گر ہوتی ہے کہ سارا منظر نامہ جگمگا سا جاتا ہے۔
تقسیمِ ہند کے بعد جب ہمارے آباؤ اجداد ہجرت کر کے پاکستان پہنچے، تو محض’’ متاعِ علم و حکمت ‘‘ہی اُن کا زادِ سفر تھا۔ زر، زمین، دولت اور مادیّت سے وہ یک سر تہی داماں تھے۔ صرف اپنی خالص تہذیب، اصل اور اساسی علم ہی اپنے سینوں میں بَھر لائے تھے اور وہی انہوں نے اگلی نسل کے رگ و ریشے میں پیوست کیا۔ انہوں نے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کر کے اولاد کو پروان چڑھایا ، مگر کبھی وقت، وسائل اور آسائشوں کی کمی کا رونا نہیں رویا، جب کہ اس کے برعکس موجودہ نسل جدید آلات اور آسائشوں کے باوجود ہمہ وقت عدیم الفرصتی کا راگ الاپتی نظر آتی ہے۔
دراصل، یہ تساہل پسند نئی نسل تعیّشات کی عادی ہو گئی ہے، حالاں کہ آج سے چار، پانچ عشرے قبل ایسی تساہل پسندی نہیں تھی۔ تب مائیں کھانا پکانے، گھر کے کام کاج اور سلائی کڑھائی سمیت بیش تر امور اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں، نیز بچّوں کی تعلیم و تربیت پر بھی پوری توجّہ دیتیں، جب کہ آج کل کی مائیں بچّوں کو قاری صاحبان اور ٹیوٹرز کے حوالے کرکے سمجھتی ہیں کہ انہوں نے گویا کوئی پہاڑ سَر کر لیاہے۔ کھانا باہر سے منگوا لیا، سونے سے قبل بچّوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئیں یا موبائل فون میں مگن ہو گئیں۔اور پھر بھی صبح و شام کا رونا کہ’’ وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘
ہمارے بزرگوں نے اپنے بچّوں کی کفالت کی خاطر کڑی مشقّتیں اُٹھانے کے ساتھ اُن کی تعلیم و تربیت پر بھی بھرپور توجّہ دی۔ ہمارے ایک تایا ابّا (اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے) موسمِ سرما میں ڈھیروں کے حساب سے تِل اور گنّے کے رس کے کنستر منگواتے تھے اور پھر لکڑیوں پر موسمِ سرما کی سوغات، تِل کے لڈّو اور گنّے کے رس کی کھیر تیار کی جاتی تھی۔
اُن کے گھر میں تعلیم و تعلّم کا ماحول تھا۔ ہروقت ذکر اذکار کی محافل ہوتیں۔ محلّے کے بچّے اُن کے ہاں قرآن پڑھنے آتے تھے۔ اور تب کسی مادّی منفعت کے بغیر صرف درس و تدریس سے لگن کے نتیجے ہی میں بچّوں کو پڑھایا جاتا تھا۔ موسمِ گرما کی تعطیلات میں ہمارا رختِ سفر اسلام آباد کی طرف بندھ جاتا اور وہاں بڑی خالہ جان کے ہاں بھی یہی صورتِ حال دیکھنے کو ملتی تھی۔ہائے؎یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔
ہمارے شب و روز ان ہی معمولات کے سنگ قدم سے قدم ملائے رواں دواں تھے، عزائم میں ایسی پُختگی تھی کہ جو بے زاری سے عاری تھی۔ اور ان ہی پُختہ عزائم کی بدولت ہرلمحہ ایک جدّت اور نیا جذبہ لیے محسوس ہوتا۔ دن میں سورج کی تمازت کا احساس رہتا اور نہ رات میں آرام و سکون کی تمنّا ہوتی۔ بس ہمہ وقت دل میں تحصیلِ علم کی لگن جاگزیں رہتی۔ سورج عین سوا نیزے پر آیا، والد صاحب محوِ خواب ہوئے اور ہم صحن کے آخری کمرے کا رُخ کرتے۔
وہاں ایک طاق میں بستہ موجود ہوتا، جس میں حضرت تھانویؒ کا بہشتی زیور، شیخ سعدی ؒ کی گلستاں بوستان اور مفتی اعظم ہند، مفتی کفایت اللہ کی تعلیم الاسلام سمیت دیگر کُتب موجود ہوتیں۔ تب یہ کُتب ہی ہمارا کُل اثاثۂ علم تھیں اور ہم انہیں پڑھتے ہوئے چشمِ تصوّر میں مانندِ اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سوئے انگلستان محو پرواز ہوجاتے۔ واللہ، ؎ شوق کا یہ عالم دیکھا نہ جائے۔ سچ کہیں تو اگر نئ نسل کو اپنے آباؤ اجداد اور بزرگوں کے علم کا عُشرِ عشیر بھی میسّر آجائے، تو یہ معاشرے کے رنگ ڈھنگ ہی بدل جائیں۔