پاکستان کی داخلی سیاست کے چھوٹے بڑے روگ سوگ تو نہ جانے کب ختم ہوں گے اور ہم کب بحیثیت قوم صراط مستقیم اختیار کریں گے لیکن مملکت خداداد پر عشروں سے مسلط نظام بد اپنی انتہا پر پہنچ گیا ہے۔داخلی سیاست کے نہ ختم ہونے والے سیاسی کھلواڑوں نے ہمیں دانستہ سیاسی و جمہوری ارتقاء کی راہ سے اتار کر لگتا ہے نفاق و انتشار و تقسیم میں جیسے مستقلاً مبتلا کر دیا ہے ۔ریاست خود ہی آئینی پٹری سے اتر کر سرزمین آئین بن گئی ہے جو گڑھوں، ناہموار بھٹکاتی پگڈنڈیوں ،رکاوٹوں در رکاوٹوں سے اٹی پڑی ہے اور ریاستی ڈھانچے کا کوئی کل پرزہ بمطابق متفقہ آئین کام نہیں کررہا۔ پاکستانی اولیگارکی (مافیہ راج) جو مزید اودھم مچانا چاہتی ہے، آئین اپنی سخت جانی اور قبولیت ایٹ لارج جزواً مفلوج و مسخ ہو کر بھی اسکی راہ میں میں رکاوٹ بن رہا ہے گویا ماورائےآئین، دھماچوکڑی، راج ہارا جواری ہو کر بھی ملک و قوم پر اپنی کل منفی طاقت سے مسلط ہے ،پارلیمان ٹیلر میڈ جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں یہ مافیا راج کی طوالت ،اس کی حفاظت اور اس کی من مانی گورننس اور عوام دشمن قانون و فیصلہ سازی سے ملک کو چلانے ہانکتے چلے جانے اور ان ہی پر ہر بوجھ لادنے کی قابل مذمت ذہنیت اور سیاہ کاری اور کتابی اسلامی جمہوریہ کو مستقلاً اپنے چنگل میں رکھنے کیلئے قوم سے لڑنے بھڑنے پر تل گئی ہے، پاکستانی اولیگارکی جس طرح پہلے ہی عوام کے اعتماد و اعتبار سے محروم عدلیہ پر حملہ آور ہے اس نے پاکستانی اجڑی قومی معیشت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے ٹھکرایا حکومتی گروہ من مانی گورننس سے سیاسی عمل ،نظام عدل اور قومی معیشت کو اڑھائی سال میں انحطاط میں مبتلا کرتا اختیارات و انتظامی ’’کمالات‘‘کے اندھا دھند استعمال میں عوام کو مہنگائی اور فسطائیت کے سوا کچھ نہ دے سکا ،بڑی حکومتی ڈھارس آئی ایم ایف کے تین سال میں 7ارب ڈالر کے مزید قرضے کی منظوری سے بندھی ہے، پی ڈی ایم 2کے پاس پہلے سخت متنازع اور غیر مقبول دور میں بحالی معیشت کا کوئی اختراعی پروگرام یا حکمت عملی تھی نہ اب دوسرے دور میں ہے جو قرض منظور ہوا وہ قرض اتارقرض ،ملک سنوار کیلئے 47والی حکومت کا دل ودماغ ڈوبا اور سویا ہی لگتا ہے۔ اسکے پاس کسی خاص شعبے کو ترجیحی و ہنگامی بنیاد پر سنوارنے کا کوئی ایجنڈا نہیں یہ سرگرم ہے تو فقط اپنے آپ کو جائز منوانے اور تسلط کو فول پروف بنانےپر اسی پر فوکس، یہی اس کی ترجیح ہے اور اقتدار کے اس ناجائز کھلواڑ میں اس نے اپنی گھبراہٹ اور وحشت پاکستان کے کیپٹل کے وقار کو اپنے ڈیزاسٹر فسطائی انتظامی اقدامات سے پرآشوب بھی کر دیا اور دنیا میں مذاق بھی بنا دیا۔ عجب انتظامیہ ہے جو ایک روایتی اور پرامن جلسہ روکنے کیلئے شہرہ آفاق و باوقار و باکمال جڑوا شہروں کو محصور کرکے ہر دو شہری آبادیوںکو ابتری میں مبتلا کردیتی ہے ۔ گزشتہ روز رات پنڈی و اسلام آباد میں جو کچھ ہوا کیا اس سے روز مرہ کاروباری و تجارتی و صنعتی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئیں اتنے بڑے اقتصادی بحران میں ہم معیشت کےشعبے میں اتنابڑا تعطل اور انتظامی بگاڑ پیدا کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ۔مینڈیٹ کی اتنی بڑی چوری کے بعد اتنی سینہ زوری سے جو پی ڈی ایم 2حکومت دکھا رہی ہے ،ملک و قوم کو خودشکنی کی راہ پر ڈالنے کے مترادف نہیں ؟اپوزیشن کا مینڈیٹ ریاستی اداروں کو اپنا ٹول بنا کر تلپٹ کرنے کے بعد احتجاج کے حق سے محروم کرنے اور منتخب نمائندوں کو بیچ پارلیمانی اجلاس سے گرفتار کرنے کے بعد آپ کیسے کسی ردعمل یا جوابی جمہوری و سیاسی سرگرمی کی توقع کرتے ہیں۔47والی حکومت اور ہمنواجو مرضی دلائل دیں اور آئین کے بگاڑ پر خاموش رہنے کے جتنے درس دیں وہ آئین کی اپنی تشریحات سے جاری پلاسٹک رجیم کو ہرگز نہیں منوا سکیں گے جس نے عوام اور ریاستی ڈھانچے میں ایک تشویشناک خلیج پیدا کر دی ہے جس سے شدید مطلوب سیاسی استحکام اور معیشت کا نارمل ہونا محال ہو گیا ہے ۔ پی ڈی ایم 2کے کرتا دھرتا تائب ہوئے بانی حکومتی اتحادی حضرت مولانا صاحب کے جائز اور مبنی برحق وسچ بیانئے پر غور کریں اور حقیقت پسند ہو کر ثابت کریں کہ واقعی آپ نے 35/40سال ملک پر بحق رائج کیا ہے بانی کی مان کر نئے الیکشن کی طرف آئیں مولانا کی یہ نشاندہی کتنی غلط ہے کہ اصلی مینڈیٹ سے محروم اسمبلی (انہوں نے سخت لفظ استعمال کیا ہے) آئین میں آئینی عدالت کے قیام جیسی ترمیم ہرگز نہیں کرسکتی ؟جو رویہ سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت سے روا رکھا جا رہا ہے اس اکثریت کو سخت غیر آئینی حربوں سے موجود الیکشن کمیشن والے کام لینے کی راہ نکالی جا رہی ہے یہ قوم و ملک کی خودشکنی کے مترادف نہیں ؟ وہ بھی تب جب ہمارے ٹوٹے ہوئے تارے بنگلہ دیش میں پاکستان سے دوطرفہ تعلقات کے بیانیے بڑی سرعت سے وہاں کے سیاسی ابلاغ میں جگہ بنا رہے ہیں ۔
تنہا بھارت کا واویلا
بھارت کے حالیہ الیکشن میں بڑی بھاری ووٹر کی تعداد نے بھارتی جمہوری حیثیت کو بچالیا ہے مودی کے پہلے دو بنیادپرست ہندو رجیم کا ڈنک کافی حد تک تو نکل گیا مودی کو اقتدار کی کرسی تک جانے اور ملک چلانے کیلئے ووٹر نے دو بیساکھیاں (حکومتی اتحادی ) ہندو توا کے علمبردار کو تھما دی ہیں جن کے بغیر وہ نہ کرسی تک جا سکتے ہیں نہ حکومت قائم رہ سکتی ہے ۔ دوسری انتخابی مہم میں پاکستان کو دنیا اور خطے میں تنہا کر دینے کا دعویٰ سینے پر ہاتھ مار مار کر انتخابی جلسوں میں کیالیکن انتخاب جیتنے کے باوجود بھارت کی تنہائی کا سفر شروع ہو گیا چین بھارت دوطرفہ تعلقات گلوان کی سرحدی کشیدگی سے اتنا بگڑا کہ مودی صاحب اس پر بات کو بھی اپنی سیاست کیلئے خطرہ سمجھے اور پورے دور میں خاموش رہے۔ مسلمانوں خصوصاً کشمیریوں کو دبوچنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ڈیزاسٹر قانون سازی کی تو اثرات بنگلہ دیش تک پہنچے خاموشی سے کوکنگ ہونے لگی اور افغانستان کےبعد اب بنگلہ دیش میں 4ارب اور نہ جانے کیا کیا ڈوب گیا اس سے بڑھ کر صدمہ یہ کہ بنگلہ دیش پاکستان کے ٹوٹے تارے کےطور پر تاب و آب سے جنوبی ایشیائی مدار میں اسلام آباد کی طرف تیزی سے مائل ہے بڑا ستم یہ ہوا کہ سری لنکا میں لیفٹ کی نئی دہلی سےسخت نالاں لیڈر شپ کی حکومت شفاف الیکشن اور زور وشور سے منتخب ہوئی جو نظریاتی طور پر چین کے قریب تر ہے جبکہ بنگلہ دیش میں مودی ڈکٹیشن سے چلتے بنگلہ دیش کے پلٹا کھانے کا سارا مدعا چین اور پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے ۔نیپال بھارت کی ایک سننے کیلئے تیار نہیں چین کا کشادہ بیک یارڈ اس کیلئے ایسا اور اتنا کھلا ہے کہ وہاں کی بھارت بیزا رحکومت کو اپنے لینڈلاکڈہونے کی کوئی فکر نہیں رہتی اور تو اور مالدیپ چین و پاکستان سے تازہ دم دوستی کا دم بھر رہا ہے اور بھارت میں حکومت و میڈیا کا بھارتی تنہائی پر واویلا بے مثال ہے۔