• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ڈھلمل معیشت کے حوالے سے گزشتہ ہفتے حوصلہ افزا خبر سننے کو ملی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے ایک اور بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دیدی ہے۔ سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری سے ملک میں معیشت سے منسلک لوگوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کے مطابق 1.1ارب ڈالر کی پہلی قسط پاکستان کو موصول ہو چکی ہے۔ اس بیل آؤٹ پیکیج کی تیاری اور اسکی منظوری کیلئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ذاتی طور پر کوشش کی اور اپنی گارنٹی سے ادارے کو مطمئن کیا اسی طرح انہوں نے چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو بھی اعتماد میں لیا اور مستقبل کے اقدامات کے حوالے سے اپنی گارنٹی دی۔یہ بیل آؤٹ پیکیج ریاست پاکستان اور مقتدرہ کی کوششوں سے منظور ہوا۔آئی ایم ایف کی جانب سے یہ پروگرام 37ماہ جاری رہیگا۔ اس پروگرام کی بدولت پاکستان کے ڈیفالٹ میں جانے کے خدشات ختم ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اگرچہ کوئی بھی مہذب ملک قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے نہیں بجاتا اور نہ ہی مبارکبادوں کے پیغامات جاری کئے جاتے ہیں بلکہ قرض بذات خود ایک ذلت آمیز کیفیت ہےجس سے پوری قوم کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم وزیراعظم کی جانب سے پوری قوم کو ’’قرض‘‘ ملنے پر مبارکباد پیش کی گئی۔ پاکستان طویل عرصہ سے ایک معاشی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے 2008ء سے لیکر 2023ء تک پاکستان نے قرض دینے والے غیر ملکی اداروں سے 129بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا اور اس مدت کے دوران پاکستان نے 135بلین ڈالر کی سود سمیت ادائیگی کی۔ لیکن اتنی بھاری ادائیگیوں کے باوجود آج بھی پاکستان 130ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی جائزہ رپورٹ میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے اگلے پانچ سال میں 124بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔لیکن اس معیشت کو کیسے صحتمند معیشت کہا جا سکتا ہے جس کا سارا انحصار قرضوں کے حصول پر ہو۔ پاکستان کی بیمار معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے طویل المدتی اور وسیع البنیاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک غیر مقبول سیاسی حکومت کیلئے اس طرح کے طویل المدتی منصوبے بنانا مشکل نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے جو کڑی شرائط عائد کی ہیں انہیں پورا کرنا بھی حکومت کیلئے کسی آزمائش سے کم نہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں این ایف سی ایوارڈ فارمولے کا دوبارہ جائزہ لینا بھی شامل ہے جو موجودہ حکومت کیلئے مشکل ترین ٹاسک ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے صوبوں کے اخراجات کی نگرانی کی جائے گی ترقیاتی پروگراموں کے اجرا کیلئے ادارے کے بورڈ کی منظوری ضروری ہوگی۔ مالی نظم و نسق مزید سخت کرنے کیلئے حکومت بذات خود اناج کی قیمتوں کا تعین کرنے سے گریز کریگی۔ اسی طرح توانائی کے شعبے کو دی جانیوالی سبسڈی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زیادہ نہیں دی جا سکے گی جس سے بجلی مزید مہنگی ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے دوران پاکستان اضافی گرانٹ حاصل نہیں کر پائے گا۔

زرعی شعبے، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ معاشی ترقی کے اشاریوں کے باوجود ملک کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ پر برقرار ہیں۔ کاروباری ماحول ناپید ہے، بیڈ گورننس معاشی ترقی اور سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سیاسی حکومتوں کے عدم استحکام، ملک میں جاری بے چینی معاشی جمود کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بیل آؤٹ پیکیج کا پاکستانی معیشت اور عام پاکستانی پر کیا اثر پڑیگا۔ ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت گزشتہ تین سال میں منفی شرح نمو کا شکار رہی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی،ڈالر کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی کی شرح میں تاریخی بلندی، اور شرح سود میں اضافہ کی وجہ سے پاکستانی معیشت سست روی کا شکار رہی ہے صنعتی یونٹوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی اور بعض یونٹوں کی بندش سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلئے اس بیل آؤٹ پیکیج کا فوری طور پر عام پاکستانی کی زندگی پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوگا۔ فی الفور نہ تو کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کم ہوں گی اور نہ ہی روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں کمی آئے گی۔ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ کمی کا بھی امکان موجود نہیں اس لیے بیرون ملک سے منگوائی جانیوالی اشیاء جیسے کہ خوردنی تیل اور دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی نہیں ہوگی۔ بے روزگاری میں بھی نمایاں کمی کا امکان موجود نہیں کیونکہ فوری طور پر بند صنعتی یونٹ چلنے کا امکان نہیں۔ تاہم اگر پاکستان نے اس معاشی پروگرام پر کما حقہ عمل کیا تو ایک سال کے اندر ملکی معیشت میں استحکام کے آثار ظاہر ہونگے۔ جو افراط زر 38فیصد تک چلی گئی تھی اب وہ نو اشاریہ چھ فیصد تک آگئی ہے اسلئے امید کی جا سکتی ہے کہ اگر یہ معاشی پالیسیاں اسی طرح جاری رہیں تو اس سال کے اختتام تک عام آدمی کی قوت خرید بہتر ہوگی قیمتوں کے بڑھنے کی شرح میں بھی نمایاں کمی ہوگی روپے کی قدر میں بہتری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی واضح کمی نظر آئیگی۔ اسی طرح شرح سود میں کمی کے باعث صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور عام آدمی کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ خدا کرے وہ دن ہم بھی دیکھیں جب قرض کے بغیر ہم خوشحال ہوں، روزگارکیلئے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں کمی آئے۔ لائق لوگ ملک سے بھاگنے کے بجائے یہاں رہنا پسند کریں۔

تازہ ترین