ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد ایک بڑی علاقائی جنگ کے خطرات سروں پرمنڈلا رہے ہیں ، جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان پھر سے اگاڑی ریاست (Front Line State) بننے جارہا ہے مگر کپتان نے ریاست کی قیمت پر اپنی سیاست بچانے کیلئے ایک بار پھر ڈی چوک میں دھمال ڈالنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔کیونکہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج ملنے کے بعد معیشت مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ،شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے چین اور ملائیشیا کے وزرائے اعظم اسلام آباد آرہے ہیں اور کپتان کو یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایک بار سیاسی و معاشی استحکام آگیاتو انتشار اور جلائو گھیرائو کی سیاست ختم ہوجائے گی ۔لہٰذا کپتان کی شرانگیزیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عالمی حالات کے سبب پیش آنے والے ممکنہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسرائیلی جارحیت کو ہمیشہ سے امریکی اشیر باد حاصل رہی ہے اور جب معاملات ایک حد سے گزرنے لگتے ہیں تو پھر مداخلت کرکے جنگ بندی کروادی جاتی ہے مگر اس بار بائیڈن انتظامیہ کی ڈھلمل پالیسی کی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑ گیا ۔جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور پھر حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کی شہادت پر منتج ہوا۔فلسطینی رہنما کو مارے جانے پر بھی ایرانی حکام نے جس طرح میزائل حملوں کے ذریعے خفت مٹانے کی کوشش کی ،اس پر بہت تنقیدہوئی تھی اور اس بار دیوار سے لگائے جانے پر بھرپور جواب دینے کے علاوہ ایران کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔اطلاعات یہ ہیں کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسرائیل پر 180بیلسٹک میزائل داغے گئے جنہیں میزائل شکن نظام نہیں روک پایا اور بیشتر میزائل نشانے پر لگنے کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔اگرچہ فی الحال باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ میزائل کہاں کہاں گرے اور نقصانات کا تخمینہ کیا رہالیکن ایرانی حکام کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس حملے میں 20اسرائیلی جنگی جہازوں F-35کو ہوائی اڈوں پرہی تباہ کردیا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہ معلومات تو مل رہی ہیں کہ کئی میزائل تل ابیب اور Nevatimایئر بیس پر گرے ہیں لیکن ان حملوں میں جنگی جہازوں کے تباہ ہونے کے دعوئوںکی فی الحال تصدیق نہیں ہوسکی۔اگر ایسا ہوا ہے تو یقینا یہ ایران کی بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ مارچ 2020ء میں وزیر دفاعJeremy Quinنے F-35جنگی جہاز کی قیمت 115ملین ڈالر بتائی تھی ۔
اسرائیلی حکا م کی طرف سے فی الحال نقصانات کی تفصیل تو نہیں بتائی گئی البتہ یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ایران نے حملہ کرکے بہت بڑ ی غلطی کی ہے ،اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور اب جوابی حملے کے لئے وقت اور جگہ کا انتخاب اسرائیل کرے گا۔امریکی انتظامیہ کی طرف سے بھی ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ممکن ہے اسرائیل کی طرف سے آنے والے دنوں میں ایران کے جوہری پلانٹس اور تیل کے کنوئوں کو نشانہ بنایا جائے ،اس کارروائی میں امریکہ کے براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں روس ایران کی مدد کو آسکتا ہے اور یہ لڑائی ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔بلاشبہ ایران افغانستان یا پھر عراق کی طرح تر نوالہ تو ثابت نہیں ہوگا لیکن اپنے دفاع کیلئے اسے اتحادیوں کا تعاون درکار ہوگا ۔واضح رہے کہ روسی وزیراعظم 30ستمبر کو تہران پہنچے تھے اور ان کے رُخصت ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایران کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کردیا گیا ۔اس کامطلب ہے کہ ایران نے روس کو اعتماد میں لینے کے بعد یہ قدم اُٹھایا ہے ۔جس طرح امریکی تائید و حمایت کے بغیر اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا ،اسی طرح ایران بھی روسی حکام سے مشاورت کئے بغیر کوئی بڑا قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس جنگ کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟پہلی بات تو یہ ہے کہ جب آپ کے ساتھ والے گھر میں آگ لگتی ہے تو آپ اس آتشزدگی سے متاثر نہ بھی ہوں تو اس کی حدت ضرور آپ تک پہنچتی ہے ۔طویل تغیر و تبدل کے بعد معیشت کے بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ،اگر مشرق وسطیٰ کی اس کشمکش نے علاقائی جنگ کی شکل اختیا رکرلی تو اس لڑائی میںسب سے زیادہ پاکستان ہی متاثر ہوگا۔سب سے پہلانتیجہ تو یہ نکلے گا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ جن میں مسلسل کئی ماہ سے مندی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا تھا ،ان کی قیمتوں میں تیزی آئے گی تو پاکستان کا امپورٹ بل بڑھ جائے گا۔اور باقاعدہ جنگ چھڑ جانے کی صورت میں ہم ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہوں گے ۔امریکہ کی طرف سے دو آپشن دیئے جائیں گے ،یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف۔یہ فیصلہ کرنا ہر اعتبار سے مشکل ہوگا۔علاقائی ،سفارتی اور معاشی نزاکتوں کومد نظر رکھنا ہوگا ۔اگر ہم امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کریں گے تو بعض دوست ممالک کی طرف سے ناقابل اعتبار اور موقع پرست کہلائیں گے ۔جس طرح افغانستا ن میں کاشت کی گئی نفرت کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے ،اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ایران میں بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔اگر ہم اس لڑائی میں ایران کا ساتھ دینے کافیصلہ کریں گے تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔ہم تو پاک ایران گیس پائپ لائن کا فیصلہ کرنے کے بعد دبائو برداشت نہیں کرپائے اور اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گئے تو اتنی بڑی لڑائی میں دریا کے مخالف سمت کیسے تیر سکیں گے؟لہٰذا ہم سب کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ اس طرح کے مشکل ترین انتخاب کا موقع ہی نہ آئے اور جنگ کے بادل چھٹ جائیں ۔ایرانی تو برسہا برس سے پابندیوں کو جھیل رہے ہیں، ابتلاو آزمائش کے عادی ہوچکے ہیں مگر ہم اس لڑائی میں بالواسطہ طور پر ملوث ہونے کی قیمت بھی نہیں چکاپائیں گے۔