• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاقی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے حال ہی میں وفاقی فلڈ کمیشن، وزارت آبی وسائل، یو ایس ایڈ، کوکا کولا فاونڈیشن اور ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے اشتراک سے’’ریچارج پاکستان‘‘ کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ماحولیاتی نظام پر مبنی موافقت اور مربوط سیلاب کے خطرے کے انتظام کے ذریعے موسمیاتی خطرات کو کم کرنا ہے۔ سات سال میں مکمل ہونے والے اس منصوبے کی مجموعی لاگت 77 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہے جس میں گرین کلائمٹ فنڈ کی چھ کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی گرانٹ اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت بھی شامل ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے چھ لاکھ اسی ہزار سے زائد افراد کو براہ راست اور 70 لاکھ سے زائد افراد کو بالواسطہ فائدہ پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ دو سال قبل ملک کے چاروں صوبوں میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی کا عمل تاحال مکمل نہیں ہو سکا ۔ اس سیلاب میں ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا جبکہ 20 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور 40 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں.0.57سینٹی گریڈ اور اوسط سالانہ بارش میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دنیا کے 10 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ یہ چیلنج ہمارے ملک میں موجود آبی ذخائر کے بنیادی ڈھانچے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ اس حوالے سے دریائے سندھ میں سیلاب کی شدت اور تعدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ کے اطراف کی آباد بستیاں ان سیلابوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ وہ خوراک اور پانی کے ساتھ ساتھ اپنی زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر مبنی ذریعہ معاش کیلئے دریا پر انحصار کرتے ہیں۔ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ریچارج پاکستان منصوبے کو ماحولیاتی نظام سے موافقت کے تصور پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے ملک میں قدرتی ماحول اور آب و ہوا کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پانی و خوراک کی حفاظت اور پائیدار معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کی جائیگی۔ اس منصوبے کے تحت تجویز کردہ اقدامات اضافی سیلابی پانی کو زرعی زمینوں اور رہائشی علاقوں تک پہنچنے سے روکنےکیلئے ہیں۔ سیلابی پانی کے بہاؤ کی رفتار کم کر کے اسے روکنے اور جذب کرنے کیلئے زمین کو ریچارج کرنے کے طریقے استعمال ہونگے۔ ریچارج پاکستان منصوبے کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں 35 ہزار 126 ایکڑ تباہ شدہ جنگلات کو بحال کرنے کے علاوہ رامک واٹرشیڈ (ڈی آئی خان) اور منچھر جھیل (ضلع قمبر شہداد کوٹ) میں 21 میل طویل پانی کے قدرتی راستوں کو بحال کر کے زیر زمین پانی کو ریچارج کرنےکیلئے127 مقامات پر تالاب بنائے جائیں گے۔ زراعت اور جنگلات کے شعبوں میں سات مقامی کاروبار متعارف کروا کے ان علاقوں کی مقامی آبادیوں کو بحالی کے عمل کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ انہیں روزگار کی فراہمی ممکن ہو۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی نظام سے موافقت پر مبنی گرین انفراسٹرکچر کو پاکستان کی قومی آبی پالیسی اور قومی و صوبائی ترقیاتی سکیموں کا حصہ بنایا جائیگا۔یوں پاکستان کے موجودہ انفراسٹرکچر نیٹ ورک میں مستقبل کی سرمایہ کاری کے ذریعے ماحولیاتی نظام سے مطابقت پیدا کی جا سکے گی۔ کسانوں کو ایسے زرعی طریقوں سے متعارف کروایا جائے گا جو مستقبل کے موسمی حالات کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ متبادل آمدنی کے مواقع پیدا کرنے میں چھوٹے کاروباروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ قدرتی وسائل پر براہ راست انحصار کرنے والے روایتی ذریعہ معاش سے ماحولیاتی نظام کی شدت کو بھی کم کرئیگا۔ریچارج پاکستان کا منصوبہ ملک میں تحفظ ماحولیات کے حوالے سے ایک تاریخی سرمایہ کاری کی علامت ہے جس کی ضرورت 2010ء میں آنیوالے’’سپر فلڈ‘‘کے بعد سے محسوس کی جا رہی تھی۔ علاوہ ازیں 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ پاکستان اب اس حوالے سے اقدامات میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم اب بھی اس منصوبے کو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ آباد علاقوں تک محدود رکھنے کی بجائے اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پانی کی بدترین قلت کے شکار بیس ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے آبی ذخائر کے تحفظ کے ساتھ ساتھ زیرزمین پانی کو ریچارج کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے فیصل آباد سمیت ملک کے بڑے صنعتی شہروں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں سیوریج اور انڈسٹریل ویسٹ واٹر کو بغیر ٹریٹمنٹ دریاوں میں ڈسچارج کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ان شہروں میں سیوریج اور انڈسٹریل ویسٹ واٹر کی نکاسی کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے گراونڈ واٹر بھی آلودہ ہو چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ یا تو بڑے شہروں کے گراونڈ واٹر کو ریچارج کرنے کیلئے اس منصوبے کا حصہ بنائے یا ان شہروں میں موجود فراہمی و نکاسی آب کے ذمہ دار اداروں کو پابند بنائے کہ وہ گراونڈ واٹر کو ریچارج کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے گزشتہ چند سال کے دوران بارشوں کی شدت اور مقدار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگر ان بارشوں کے پانی کو گروانڈ واٹر ریچارج کرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو بہت کم اخراجات میں بڑے شہروں کی رہائشی آبادیوں کو درپیش پینے کے پانی کی فراہمی کا ایک بڑا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ان شہروں میں موجود پارکوں میں ریچارج ویل بنانے کے علاوہ گرین بیلٹس کو ایک سے دو فٹ گہرا کرکے بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے تعمیر شدہ گھروں، صنعتی اداروں، ہوٹلوں و دیگر سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں میں بھی بارش کے پانی کو لازمی طور پر گروانڈ واٹر ریچارج کرنےکیلئے استعمال کرنے کے حوالے سے قانون متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے جہاں کلائمٹ چینج کے منفی اثرات سے بچنے میں مدد ملے گی وہیں ہم اپنے شہروں کو زیادہ ماحول دوست بنا کر شہریوں کو درپیش پانی کی کمی کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین