سیانے کہتے ہیں کہ طاقت کے زور پر ریاست اور ریاستی نظام پر قبضہ کرنے کی خواہش تکبر کی بدترین صنف کے ساتھ ساتھ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔عمران خان نے جہاں نسلوں کو گمراہ کیا وہاں سیاست میں تشدد، شرانگیزی، جھوٹ، فریب، بدزبانی اور دہشتگردی کو شامل کرکے اسے جمہوریت کا نام دیا۔تاریخ نے دنیا میں فرعون، ہٹلر اور اب نیتن یاہو جیسے ہزاروں طاقتور حکمرانوں کے قصے رقم کئے ہیں جو اپنے تکبر کو اپنی طاقت تصور کرتے تھے، خاک میں ملتے دیکھے ہیں۔4اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کی کال دے کر پارٹی رہنماؤں کو ٹاسک دیا گیا کہ انہیں ہرحالت میں انتہائی حساس مقام ڈی-چوک پہنچناہےلیکن پی-ٹی-آئی کی قیادت مقامی یا پنجاب کی سطح پرپارٹی سپورٹرز کو توقع کے مطابق گھروں سے نکالنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکی البتہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ایک بڑا جتھہ،جنہیں حکومتی حلقوں نے مسلح قرار دیا تھا، اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہو گئے جس کے لئے انہوں نے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے کے علاوہ اسلام آباد کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مقابلے کے لئے سادہ کپڑوں میں ملبوس صوبے کی پولیس کی بھاری نفری شامل کرلی جن کی موجودگی کا علم اس وقت ہوا جب اسلام آباد پولیس نے کے-پی-کے پولیس کے گیارہ اہلکاروں کو ڈی چوک اور چائیہ چوک سے اسلام آباد پولیس پر پتھراؤ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔اسلام آباد پر یلغار کرنے والے اس جتھے نے ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت کو تاراج کردیا یہاں تک کہ جناح ایونیو پر لگے سرسبز درختوں کو جلا کر راکھ کردیا، میٹرو بس اسٹیشنوں کو نقصان پہنچایا اور جنگلے توڑ دئیے۔اس سے دو روز قبل تحریک انصاف کے وکلا کی بھاری تعداد نے شاہراۂ دستور پر احتجاج کے دوران سپریم کورٹ اور اس کے ججز کی توہین کی اور پتلے جلائے کیونکہ تحریک انصاف کے بعض عہدیدار وکلا کو یہ خدشہ تھا کہ بانی چیئرمین ان کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر انہیں عہدوں سے فارغ کر دیں گے۔کہتے ہیں کہ عمران خان نے سپریم کورٹ سے ان کی مرضی کا فیصلہ نہ آنے پراسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بات کا اظہار تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما اپنی نجی محفلوں میں کرتے سنے گئے ہیں۔’’کون سی حکومت چل سکتی ہےجہاں ایک عام آدمی کھڑا ہو کر کہے کہ ججوں کو بھی قتل کر دو، آرمی چیف کے خلاف بھی بغاوت کر دو،لوگوں کو بھی سڑکوں پر نکالیں ، سڑکیں بھی بند کر دیں۔ اگر سپریم کورٹ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو یہ فیصلہ ہی نہیں مانتے، سڑکوں پر آجائیں گے یعنی کوئی ملک چل سکتا ہے؟ ایسےنقصان کس کا ہے؟، پاکستانی قوم کا ہے،! غریب آدمی کا نقصان ہے، سڑکیں بند کر رہے ہیں ان کا روزگار جا رہا ہے جب ملک رک جائے گا بےچارہ مزدور کیسے بچوں کا پیٹ پالے گا۔یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں کر رہا ہے یہ اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں۔ میں ان عناصر سے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست سے نہ ٹکرانا اگر آپ ایسا کریں گے میں آپ کو یہ واضح کرتا ہوں کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی،لوگوں کی پراپرٹیز، ان کی جان و مال کی حفاظت کرے گی، ہم کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہونے دیں گے، ہم کوئی ٹریفک نہیں رکنے دیں گے، میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست کو ادھر تک نہ لے جائیں جہاں ریاست ایکشن لینے کے لئے مجبور ہو جائے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت ادا کئے تھے جب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ اور دھرنا دیا تھا۔ اگرچہ مولانا نے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے انتہائی پرامن احتجاج کیا تھا لیکن عمران خان کے اصولوں کے مطابق ان کے اقتدار میں رہتے ہوئے ان کی کہی ہوئی باتیں اپوزیشن کے دور کے رویوں کے برعکس ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ آمرانہ طبیعت کے مالک ہیں اس لئے ان پر کی جانے والی تنقید انہیں گولی بن کر لگتی ہے اور اپوزیشن بنچوں پر وہ اعمال جو انہوں نے اقتدار میں کئے ہوتے ہیں، اقتدار سے باہر ہو کرغیر جمہوری اور غیر آئینی قرار پاتے ہیں۔دور اقتدارمیں مولانا کو ڈیزل اور فضلو کے ناموں سے پکار کر ان کی تضحیک کرنے والا عمران خان صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے اسی ڈیزل کے قدموں میںپڑا ہے، محمود خان اچکزئی کی روایتی چادرکے پہننے کے انداز کا تمسخر اڑانے والےعمران خان آج اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لئے اسی چادر والے کی منتیں سماجتیں کر رہا ہے۔عمران خان نے کئی چہرے پہن رکھے ہیں جنہیں وہ وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔